Friday, 30 September 2022

ان کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں

 ان کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں

جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں

وقت کے ساتھ اترتی ہیں نقابیں ساری

ہوتے ہوتے ہی کئی راز عیاں ہوتے ہیں

تم نے سوچا ہے کبھی تم سے بچھڑ نے والے

کیسے جلتے ہیں، شب و روز دھواں ہوتے ہیں

دور ساحل سے سمندر نہیں ناپا جاتا

درد لفظوں میں بھلا کیسے بیاں ہوتے ہیں

کون آنکھوں میں چھپے کرب کو پڑھتا ہو گا

لوگ اتنے بھی سمجھدار کہاں ہوتے ہیں

پھول کھلتے ہیں نہ موسم کا اثر ہوتا ہے

ہم بہاروں میں بھی تصویرِ خزاں ہوتے ہیں

میں نے ٹکڑوں میں بٹی آج بھی دیکھی عورت

روح ہوتی ہی نہیں جسم جہاں ہوتے ہیں


فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment