ان کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں
جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں
وقت کے ساتھ اترتی ہیں نقابیں ساری
ہوتے ہوتے ہی کئی راز عیاں ہوتے ہیں
تم نے سوچا ہے کبھی تم سے بچھڑ نے والے
کیسے جلتے ہیں، شب و روز دھواں ہوتے ہیں
دور ساحل سے سمندر نہیں ناپا جاتا
درد لفظوں میں بھلا کیسے بیاں ہوتے ہیں
کون آنکھوں میں چھپے کرب کو پڑھتا ہو گا
لوگ اتنے بھی سمجھدار کہاں ہوتے ہیں
پھول کھلتے ہیں نہ موسم کا اثر ہوتا ہے
ہم بہاروں میں بھی تصویرِ خزاں ہوتے ہیں
میں نے ٹکڑوں میں بٹی آج بھی دیکھی عورت
روح ہوتی ہی نہیں جسم جہاں ہوتے ہیں
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment