اب وہاں لو ہے مِری فریاد کی
وقت کے صحرا میں جتنی ریت ہے
سب پھانک لی
راستوں کے بر سے عمریں ماپ لیں
دوریوں کا سم پروں میں بھر لیا
وُسعتوں کو آنسوؤں پر جر لیا
پانیوں کا جل زمانہ ساز ہے
ساحلوں کی چُپ، خدا کے راز ہے
پنچھیوں کا شور، ساگر ڈر گیا
موتیوں سے سبز ساحل بھر گیا
ٹاپوؤں پر روشنی ہونے لگی
رِزق جن کا تھا مگر، سوئے رہے
جب صدائیں کھو گئیں، مت چونکیے
ریت ہوتے پتھروں سے پوچھیے
میں وہیں پر نغمہ خواں تھا جس جگہ
کھوجنے والوں نے چُپ ایجاد کی
اب وہاں لو ہے مِری فریاد کی
انور زاہد
No comments:
Post a Comment