غبارِ کرب سے چہرہ گلاب کون کرے
تلاش رات کے وقت آفتاب کون کرے
کتابِ حُسن کا تحریر باب کون کرے
خِرد، جنوں کا مقرر نصاب کون کرے
دروغِ مصلحت آمیز کی وبا پُھوٹی
مرض یہ عام ہُوا اجتناب کون کرے
کِسے پڑی ہے کہ اپنا سکوں کرے غارت
دل و نگاہ کو پُر اضطراب کون کرے
اگر گناہ کے انجام سے بھی ہو واقف
کِسی گناہ کا پھر ارتکاب کون کرے
ہر ایک دوست کرے تیری نیکیوں کا شمار
تِرِی بُرائیوں کو بے نقاب کون کرے
ہزار رُوپ ہیں اُس کے ہزار شکلیں ہیں
وہ ایک ذات ہے پر بے حجاب کون کرے
غریب شہر کے ہر جُرم کا ثبوت ملا
امیرِ شہر کا اب احتساب کون کرے
تمام شہر میں فارغ نہیں کوئی مجذوب
تمہارے ظلم و ستم کا حساب کون کرے
مجذوب چشتی
No comments:
Post a Comment