چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا
لیکن وہ تبسم ہی محبت کا نہیں تھا
چھوڑا بھی مجھے اور بہت خوش بھی رہے ہو
افسوس کے میں آپ کی عادت کا نہیں تھا
وقتوں کے سیاہ رنگ سے ذروں پہ لکھا ہے
دنیا میں کوئی دور شرافت کا نہیں تھا
اب سر کو پٹکنے سے کوئی فیض نہیں ہے
مرنے کا تقاضہ تھا وہ ہجرت کا نہیں تھا
دربار بھی تھا صاحب کردار بھی، لیکن
ادنیٰ سا کوئی جذب سخاوت کا نہیں تھا
ناصر راؤ
No comments:
Post a Comment