Wednesday 28 September 2022

چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا

 چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا

لیکن وہ تبسم ہی محبت کا نہیں تھا

چھوڑا بھی مجھے اور بہت خوش بھی رہے ہو

افسوس کے میں آپ کی عادت کا نہیں تھا

وقتوں کے سیاہ رنگ سے ذروں پہ لکھا ہے

دنیا میں کوئی دور شرافت کا نہیں تھا

اب سر کو پٹکنے سے کوئی فیض نہیں ہے

مرنے کا تقاضہ تھا وہ ہجرت کا نہیں تھا

دربار بھی تھا صاحب کردار بھی، لیکن

ادنیٰ سا کوئی جذب سخاوت کا نہیں تھا


ناصر راؤ

No comments:

Post a Comment