تخت و تاج اور نہ کچھ مال و زر چاہیے
مجھ کو تو صرف اس کی خبر چاہیے
دھوپ آنگن سے جاتی نہیں ہے کبھی
سائے کے واسطے اک شجر چاہیے
در بدر ٹھوکریں کھا کے آیا ہوں میں
میرے سر کو تِرا سنگ در چاہیے
توڑ دے جو قفس کی سبھی تیلیاں
مجھ کو وہ قوت بال و پر چاہیے
جن کی راتیں گزرتی ہیں زیر فلک
ان کو بھی شہر میں کوئی گھر چاہیے
نقش غم جو مٹا دے دل زار کا
داغ کو وہ کرم کی نظر چاہیے
داغ نیازی
No comments:
Post a Comment