Wednesday 28 September 2022

نقش بر آب کناروں کے میاں ڈوبتا ہے

 نقشِ بر آب کناروں کے میاں ڈُوبتا ہے

آنکھ سیلاب اٹھائے تو سماں ڈوبتا ہے

مُردہ اجسام تہِ آب نہیں رہ سکتے

ابھی زندہ ہے مِرا دل کہ یہاں ڈوبتا ہے

حکم آیا ہے کہ چڑیاں نہ چہکنے پائیں

یہ چہکتی ہیں تو پھر شورِ سگاں ڈوبتا ہے

سیلِ ادراک ہے یہ اور یہاں موجوں میں

وہ تموّج ہے کہ مینارِ گُماں ڈوبتا ہے

ڈوب جاتا ہوں کسی موج کی طغیانی میں 

ایسے جیسے کسی دریا میں جواں ڈوبتا یے

تیرنے والے بچاتے ہی نہیں ڈوبتے کو

فقط آواز لگاتے ہیں؛ فلاں ڈوبتا ہے

زن زمیں زر سے بناتا ہے وہ برمُودہ تکون

جو بھی جاتا ہے مِری جان وہاں ڈوبتا ہے


عصمت اللہ نیازی

No comments:

Post a Comment