Tuesday, 27 September 2022

دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی

 دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی

ریت پر بیٹھ کے پانی کی نمائش نہیں کی

وقت ہر چیز کو مٹی میں ملا دیتا ہے

اس لیے ہم نے جوانی کی نمائش نہیں کی

چاند کو گھر سے نکلنے میں جو تاخیر ہوئی

رات نے رات کی رانی کی نمائش نہیں کی

ہم نے سیلاب کی امداد تو کر دی ہے، مگر

شہر میں خستہ مکانی کی نمائش نہیں کی

درد کے معجزے ہوتے ہیں لُغت سے آزاد

میر نے حسنِ معانی کی نمائش نہیں کی

اک غزل لکھ کے بہا دی ہے ندی میں مختار

پر طبیعت کی روانی کی نمائش نہیں کی


مختار علی

No comments:

Post a Comment