دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی
ریت پر بیٹھ کے پانی کی نمائش نہیں کی
وقت ہر چیز کو مٹی میں ملا دیتا ہے
اس لیے ہم نے جوانی کی نمائش نہیں کی
چاند کو گھر سے نکلنے میں جو تاخیر ہوئی
رات نے رات کی رانی کی نمائش نہیں کی
ہم نے سیلاب کی امداد تو کر دی ہے، مگر
شہر میں خستہ مکانی کی نمائش نہیں کی
درد کے معجزے ہوتے ہیں لُغت سے آزاد
میر نے حسنِ معانی کی نمائش نہیں کی
اک غزل لکھ کے بہا دی ہے ندی میں مختار
پر طبیعت کی روانی کی نمائش نہیں کی
مختار علی
No comments:
Post a Comment