عیاں کسی پہ ہمارا یہ حال تھوڑی ہے
کہا جو ہے، وہی سارا کمال تھوڑی ہے
جو دل کے راز بھی جانے تو سرخرو ٹھہرے
یہاں پہ ایسا کوئی با کمال تھوڑی ہے
ذرا سا درد ملا تو وہ بھاگ کر آیا
محبتیں جو دے اس کو زوال تھوڑی ہے
یہاں پہ خوشبو بسائے ہوئے ہیں سارے لوگ
کوئی بھی درد سے اب پائمال تھوڑی ہے
بس ایک بار محبت سے دیکھ لے ہم کو
ہمارے لب پہ کوئی اور سوال تھوڑی ہے
پلٹ کے دیکھوں گا اس کو میں بارہا اطہر
کہ اس کی باتوں کا مجھ کو ملال تھوڑی ہے
یعقوب اطہر
No comments:
Post a Comment