کانٹوں سے بھرے بن میں رستے کی بِنا ڈالی
دے دے کے لہو طرحِ نقشِ کفِ پا ڈالی
بدلے میں دفینے کے قطرے ہیں پسینے کے
کیوں دل کی گواہی پر دیوار گرا ڈالی
پھر آج فضاؤں کو مطلوب ہے خونریزی
بادل کی زرہ پہنی، شمشیرِ صبا ڈالی
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا،۔ تصویر دکھا ڈالی
دنیا رہی خوابیدہ، خورشید نے شب بھر میں
پچھم سے شفق لا کر پورب میں بچھا ڈالی
خورشید رضوی
No comments:
Post a Comment