Friday 30 September 2022

روزانہ ایک چیخ مجھ پہ گرتی ہے

 ڈومیسٹک وائلینس


روزانہ ایک چیخ مجھ پہ گرتی ہے

مگر میں خاموش رہتا ہوں

ایک بے موقع، رعب دار آواز

دو بے وجہ گھورتی ہوئی آنکھیں

میرے گرد ایک دائرہ کھینچتی ہیں

دن کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے

حوالات سے نکلنے کی تگ و دو

سفارشی خط نہیں، کچھ مؤثر نہیں 

زندگی ایک خواب ہے

جس کا ہر منظر

ڈالی کی مصوری سا ہے

اکثر کرداروں نے اپنے چھوٹے سروں پہ

خناسی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں

صرف محبت ان کے ناکوں کی

 لمبائی نہیں ماپ سکتی

میرا اکثر وقت صرف ہو جاتا ہے

اس پینٹنگ کی گرد جھاڑنے میں

جس میں انگلیوں سے لمبا انگوٹھا 

مجھے ڈراتا رہتا ہے

ایک گھر میرے اندر بھی بستا ہے

جس کی دیواروں پہ

روزانہ کوئی کیل ٹھونک جاتا ہے

میں وہ میخیں نکالتا رہتا ہوں

دیوار کا ہر سوراخ میرے لیے

ایک مستقل طعنہ بن جاتا ہے

میں زندگی کے خواب میں رینگتا رہتا ہوں


ثاقب ندیم

No comments:

Post a Comment