فلمی گیت
سنگِ مر مر سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن
اتنا دلکش ہے کہ اپنانے کو جی چاہتا ہے
سرخ ہونٹوں میں تھرکتی ہے یہ رنگین شراب
جسے پی پی کے بہک جانے کو جی چاہتا ہے
نرم سینے میں دھڑکتے ہیں وہ نازک طوفان
جن کی لہروں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
تم سے کیا رشتہ ہے کب سے ہے یہ معلوم نہیں
لیکن اس حسن پہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
رکھ لے کل کے لیکن یہ دوسری پازیب ساگر
کل پھر اسی بزم میں آنے کو جی چاہتا ہے
بے خبر سوئے ہیں وہ لوٹ کے نیندیں میری
جذبۂ دل پہ ترس کھانے کو جی چاہتا ہے
کب سے خاموش ہو اے جانِ جہاں کچھ تو بولو
کیا ابھی بھی ستم اور ڈھانے کو جی چاہت اہے
چھوڑ کر تم کو کہاں چین ملے گا ہم کو
یہیں جینے یہیں مر جانے کو جی چاہتا ہے
میرے دامن کو کوئی اور نہ چھو پائے گا
تم کو چُھو کر قسم یہ کھانے کو جی چاہتا ہے
چاند چہرہ ہے تیرا،۔ اور نظر ہے بجلی
ایک ایک جلوے پر مر جانے کو جی چاہتا ہے
چاند کی ہستی ہی کیا سامنے جب سورج ہو
آپ کے قدموں میں مٹ جانے کو جی چاہتا ہے
ہم سے خوش نصیب تو یہ پازیب ہے جو تیرے پاؤں میں ہے
اسی پازیب میں ڈھل جانے کو جی چاہتا ہے
ساحر لدھیانوی
No comments:
Post a Comment