Thursday, 29 September 2022

آنکھ میں خون ناب رکھتی ہے

 آنکھ میں خون ناب رکھتی ہے

پانیوں میں شراب رکھتی ہے

وہ تعلق کی پہلی سیڑھی پر

خامشی کے گلاب رکھتی ہے

ہم کریں گے کوئی سوال اس سے

دیکھیے، کیا جواب رکھتی ہے

خوف آتا ہے اس کو لفظوں سے

سر کے نیچے کتاب رکھتی ہے

ساری آنکھیں وہیں پہ ہوتی ہیں

وہ جہاں اپنے خواب رکھتی ہے


زوہیب عالم

No comments:

Post a Comment