آنکھ میں خون ناب رکھتی ہے
پانیوں میں شراب رکھتی ہے
وہ تعلق کی پہلی سیڑھی پر
خامشی کے گلاب رکھتی ہے
ہم کریں گے کوئی سوال اس سے
دیکھیے، کیا جواب رکھتی ہے
خوف آتا ہے اس کو لفظوں سے
سر کے نیچے کتاب رکھتی ہے
ساری آنکھیں وہیں پہ ہوتی ہیں
وہ جہاں اپنے خواب رکھتی ہے
زوہیب عالم
No comments:
Post a Comment