یعنی کہ ابھی خواب ہے جاری، نہ گئی رات
دن بھی نکل آیا پہ ہماری نہ گئی رات
رنگوں کے تعاقب میں گزارا نہ گیا دن
خوشبو کی معیت میں گزاری نہ گئی رات
اک خواب کی تعظیم میں بستر نہ لپیٹا
اک وعدۂ تعبیر پہ ہاری نہ گئی رات
جدول سے ذرا ہٹ کے لیا کام فلک نے
اور چاند ستارے پہ اتاری نہ گئی رات
ہم نے تو ستاروں کا بھرم توڑ دیا ہے
ہم سے تو اجالے میں نتھاری نہ گئی رات
عصمت اللہ نیازی
No comments:
Post a Comment