Wednesday 28 September 2022

نغمگی جیسے کسی ساز کو زندہ کر دے

 نغمگی جیسے کسی ساز کو زندہ کر دے

اک سماعت مِری آواز کو زندہ کر دے

پر شکستہ ہوں مگر جست تو بھر لوں شاید

یہی کوشش مِری پرواز کو زندہ کر دے

ہم اسی عشق کی شمشیر سے گھائل ہیں کہ جو

بعض کو مار دے اور بعض کو زِندہ کر دے

عین ممکن ہے کہ انجامِ سفر سے پہلے

حرفِ کُن پھر مِرے آغاز کو زندہ کر دے

عشق میں جذبۂ فرہاد کو معیار بنا

شعر میں میر کے انداز کو زندہ کر دے

یہی اجڑا ہوا منظر یہی بُجھتا ہوا دیپ

جانے کب میری تگ و تاز کو زندہ کر دے

قحطِ آدم ہے یہاں بھیج کوئی شاہ لطیف

یا مجھی میں کسی شہباز کو زندہ کر دے

کیا عجب ہو یہی پیرایۂ سادہ مختار

تیرے لکھے ہوئے الفاظ کو زندہ کر دے


مختار علی

No comments:

Post a Comment