حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں
زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں
تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے
آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں
پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ
ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں
گھونسلے ویران ہیں اب وہ پرندے ہی کہاں
اک بسیرے کے لیے جو آب و دانہ چھوڑ دیں
وسیم بریلوی
No comments:
Post a Comment