Friday 30 September 2022

حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں

 حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں

زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں

تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے

آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں

پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ

ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں

گھونسلے ویران ہیں اب وہ پرندے ہی کہاں

اک بسیرے کے لیے جو آب و دانہ چھوڑ دیں


وسیم بریلوی

No comments:

Post a Comment