Wednesday 28 September 2022

زہر اب آب و ہوا کا تو نہیں پِینا ہے

 زہر اب آب و ہوا کا تو نہیں پینا ہے

ہم کو زندان میں ڈالو کہ ہمیں جینا ہے

ہے مرض ایک ہی کیا شہر کے انسانوں کو

جو بھی مرتا ہے وہ کیوں تھامے ہوئے سینہ ہے

وسعتِ عالمِ امکان ذرا سوچیں تو

یہ زمیں اس میں فقط ایک قرنطینہ ہے

اے خداوند! اُتارو بھی کوئی اس کا علاج

یہ وہ گھاؤ ہے جو دنیا نے نہیں سینا ہے

آؤ کچھ سیرِ سماوات ہی کر لیں احسان

جانبِ عرش لگاؤ جو کوئی زینہ ہے


احسان عباس

No comments:

Post a Comment