اس کو پایا بھی اس میں کھویا بھی
گم ہوئے روشنی کے سب آثار
چُھپ گیا مجھ سے میرا سایا بھی
کر گیا قتل مجھ کو دوست مِرا
نام مشکل ہے اس کا لینا بھی
اُس نے ٹھانی تھی چھوڑ جانے کی
میں نے رو رو اُسے پُکارا بھی
تھا اُسے قافلے کا ساتھ عزیز
گرچہ مُڑ مُڑ کے اُس نے دیکھا بھی
جانے والوں کو روک پایا کون
جاتا ہے دو ہزار تیرہ بھی
روک لیتا اگر یہ رُک سکتا
اس کو پایا بھی اس میں کھویا بھی
اجلال حسین
No comments:
Post a Comment