دل کا آرام پسِ آہ و فغاں دیکھتا ہے
رُخ بھی یہ قافلۂ نوحہ گراں دیکھتا ہے
وہ مِری پیاس کے شعبوں میں ٹھہرتا ہی نہیں
استخارہ جو کبھی آبِ رواں دیکھتا ہے
میں نے چھانا ہے اسی ڈھنگ سے دشت و صحرا
جیسے رہنے سے کوئی قبل مکاں دیکھتا ہے
آگ لگتی ہے تو ہوتی ہے نظر خود منظر
اور آنکھوں کو تعجب سے دُھواں دیکھتا ہے
یعنی مٹی سے بھی مٹی کو سروکار نہیں
یہ سرِ خاک تہِ خاک کہاں دیکھتا ہے
کوئی آیا تھا چلا بھی گیا کچھ کہہ نہ گیا
کوئی سر تھام کے قدموں کے نشاں دیکھتا ہے
کمیل شفیق رضوی
No comments:
Post a Comment