کبھی دھنک، کبھی شاخِ نبات سا پھیلا
طرف طرف، میں طلسماتِ ذات سا پھیلا
عجب گرفتِ ہوس خوشبوؤں کے لمس میں تھی
ہوا کے سینے پہ اک نرم ہات سا پھیلا
ہوں اپنے بسترِ احساس میں شکن کی طرح
کبھی میں خواب سا بکھرا، نہ رات سا پھیلا
کہِیں سے اٹھے اب آندھی تو راستہ طے ہو
میں پا شکستہ، سفر حادثات سا پھیلا
ہے آسماں تو تِری دسترس سے دور بہت
مجھی کو اپنی زمیں پر قنات سا پھیلا
خود اپنے ذات کے نقطے میں ہو گیا تحلیل
میں اس کی کھوج میں، جب کائنات سا پھیلا
بدل کے لمحوں کو صدیوں میں، خوش ہے وہ لیکن
یہ دائرہ بھی، بہت بے ثبات سا پھیلا
مجھے یہ ڈر ہے، اسی دُھند میں نہ کھو جاؤں
نفش نفس ہے غبارِ حیات سا پھیلا
کِسی جزِیرے میں قیدی بنا کے رکھ لے مگر
نہ میرے گِرد حصار اب فرات سا پھیلا
نہ یوں گرفت میں آئیں گے فن کے امکانات
اک ایک لفظ کو شش جہات سا پھیلا
تُو اس ہجوم میں پہچان اپنی کھو دے گا
فضا نہ ذات کو اپنی، صفات سا پھیلا
فضا ابن فیضی
No comments:
Post a Comment