تاروں کی جھمکتی باڑھ تلے آنکھوں میں رات گزاری ہے
اور آٹھ منٹ کی دوری پر سورج کی زرد عمّاری ہے
گردُوں پہ کمندیں ڈال چکے، مہتاب اُچھالا نیزے پر
امکان کی سرحد پار ہوئی، اب آگے کی تیاری ہے
کافوری شمعوں کی لو پر طبلے کی گَت لہراتی ہے
اور نیمۂ شب کے محضر میں سنگت کو اک درباری ہے
مستقبل کے سیارے پر کچھ صاحبِ امر مشیں زادے
مصروف ہیں کارِ دنیا میں اور اپنے لیے بیکاری ہے
بازار چڑھا تو سوداگر، خوابوں کے بغچے باندھ چلے
رستے میں مگر شبخون پڑا، شمشیر اجل نے ماری ہے
جس کارن دیس بدیس لڑے لشکر، پیادے، سالار، جواں
قصباتی قحبہ خانے کی لچکیلی سی بھٹیاری ہے
ایمان اور صبر کی وادی سے جنت کی طرف جانا تھا مگر
کچھ ایماں کی کمزوری ہے کچھ صبر کا پتھر بھاری ہے
گر وقت کا دھارا ٹوٹ گیا، پھر محفلِ ہست و بود کہاں
بہتے ہوئے دریا پر تُو نے کیا سوچ کے لاٹھی ماری ہے
عابد رضا
No comments:
Post a Comment