Tuesday, 27 September 2022

شہر میں چھائی ہوئی دیوار تا دیوار تھی

شہر میں چھائی ہوئی دیوار تا دیوار تھی

ایک پتھریلی خموشی پیکرِ گُفتار تھی

بادلوں کی چٹھیاں کیا آئیں دریاؤں کے نام

ہر طرف پانی کی اک چلتی ہوئی دیوار تھی

آرزو تھی سامنے بیٹھے رہیں باتیں کریں

آرزو لیکن بچاری کس قدر لاچار تھی

گھر کی دونوں کھڑکیاں کھلتی تھیں سارے شہر پر

ایک ہی منظر کی پورے شہر میں تکرار تھی

آنسوؤں کے چند قطروں سے تھی تر پوری کتاب

ہر ورق پر ایک صورت مائلِ گُفتار تھی

اس سے ملنے کی طلب میں جی لیے کچھ اور دن

وہ بھی خود بیتے دنوں سے بر سرِ پیکار تھی


اشہر ہاشمی

No comments:

Post a Comment