سائے کی واردات سے حیران تو نہیں
یہ دُھوپ اپنے آپ سے انجان تو نہیں
لازم ہے اس بدن سے تحیّر کشید ہو
اس حُسن کا بیان یہ مُسکان تو نہیں
آئے گا جلد ہجر کی تحویل میں وہ شخص
خواہش ہے میری ظاہری امکان تو نہیں
ایسا نہیں کہ ڈر کے اسے پُوجنے لگوں
پتھر کا ایک شخص ہے بھگوان تو نہیں
وحشت کو زادِ شب نہ بنائیں اب اس قدر
حاشر یہ گھر ہے آپ کا، زندان تو نہیں
آفاق حاشر
No comments:
Post a Comment