سُنہری دھوپ کے پروردگار، دُھند کے پار
کوئی صحیفہ یہاں بھی اُتار،. دھند کے پار
رگوں میں آج بھی جیسے بھٹک رہا ہے کوئی
لہو کے گھوڑے پہ زخمی سوار، دھند کے پار
ہماری آنکھ میں اب تک دُھواں ہے خوابوں کا
کہ جل بُجھے ہیں ستارے ہزار، دھند کے پار
رُکا ہے وقت یہاں جیسے کُہر دریا پر
بس ایک جست لگانی ہے یار، دھند کے پار
میں کیا بتاؤں وہاں شور ہے کہ خاموشی
سماعتوں کا بھی کیا اعتبار، دھند کے پار
مِلا نہیں مجھے اب تک کوئی بھی اس جانب
میں خود کو ڈھونڈنے نکلا ہوں یار، دھند کے پار
قدم قدم پہ یہ کہتی ہے دُھوپ کی شدت
اُتار پھینک بدن کا یہ بار، دھند کے پار
عابد رضا
No comments:
Post a Comment