کوئی دم راحت جنوں کے ہاتھ سے پائیں گے کیا
زخم بھر جائیں گے تو ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
تنگ دستی سے میانِ گور تنگ آئیں گے کیا
ہاتھ کو جب کھینچ لیں گے پاؤں پھیلائیں گے کیا
حالِ عاشق ان کو سُننے کا مزا ہے اس قدر
ہم کہے جائیں گے جتنا، وہ کہے جائیں گے کیا
اپنے کہنے میں جب اپنا ہی دلِ مُضطر نہیں
اُس بُتِ گُمراہ کو ہم راہ پر لائیں گے کیا
دل لگی کو حُور بن جائیں گے اعمالِ نکو
کُنجِ مرقد میں اکیلے رہ کے گھبرائیں گے کیا
بھر گئے زخم جگر، ناخن سلامت ہیں تو پھر
پُھوٹ کر چھالے نہ دل میں گھاؤ پڑ جائیں گے کیا
قحط بادہ ہے یہی اے شاد! تو مثلِ کباب
فاقہ مستی میں سوائے داغ ہم کھائیں گے کیا
شاد لکھنوی
شاد پیر و میر
No comments:
Post a Comment