Friday, 30 September 2022

بہت دن ہو گئے ہیں آنسوؤں سے مل نہیں پائے

بہت دن ہو گئے ہیں 

بہت دن ہو گئے ہیں 

آنسوؤں سے مل نہیں پائے 

اداسی درد کا نعم البدل ہو کر بھی 

کچھ ایسی نہیں ہوتی 

زمانے بھر کی خوشیاں اور سُکھ 

خود ساختہ حیرت کی مانند 

کھوکھلے اور خالی ہوتے ہیں 

تمہیں معلوم ہے فرحت؟ 

بہت ہنستے ہوئے دل میں 

کبھی جھانکا نہیں کرتے 

یہ کن باتوں سے بچتے پھر رہے ہو آج کل 

اور کس کو دھوکہ دے رہے ہو 

چین کی جُھوٹی تسلی میں 

بہت دن ہو گئے ہیں 

دُکھ سہیلی سے ملے بچھڑے  

تمہیں کیا کچھ نہیں ہوتا کبھی 

کچھ بھی نہیں ہوتا 

دُکھوں سے اپنے دامن کو بچاتے 

او، مِرے پاگل 

مِرے جُھوٹے 

مِرے نادان 

خوش خلقی ہمیشہ بوجھ ہوتی ہے 

جو اپنے دل پہ آ پڑتا ہے اکثر لوٹ کر 

اور زخم کر دیتا ہے ان دیکھا 

بہت دن ہو گئے ہیں 

ذات سے نکلے ہوئے تم کو 

بتاؤ تو 

کبھی واپس نہ آؤ گے 

بہت دن ہو گئے ہیں 

کیا کبھی واپس نہ آؤ گے


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment