میرے جگر کے درد کا چارا کب آئے گا
یک بار ہو گیا ہے، دوبارا کب آئے گا
پُتلی ہمارے نیں کے جھروکے میں بیٹھ کر
بے کل ہو جھانکتی ہے، پیارا کب آئے گا
اس مُشتری جبِیں کا مجھے غم ہوا زُحل
طالع مِرے کا نیک سِتارا کب آئے گا
مُرجھا رہی ہے دل کی کلی غم کی دھوپ میں
گُلزارِ دلبری کا ہزارا کب آئے گا
ہے شاد اپنے پھول سے ہر بلبل اے سراج
وہ یارِ نو بہار ہمارا کب آئے گا
سراج اورنگ آبادی
No comments:
Post a Comment