کچھ قلندر کہ کوہِ عدم کی طرف، عہد نامے سُناتے ہوئے چل پڑے
دشتِ موجود کی گھاٹیوں میں اِدھر، ہم نگاڑے بجاتے ہوئے چل پڑے
کارِ خلقت کا ناقوس بجنے کو تھا، کُن کی سرحد پہ پہلا دھماکہ ہوا
آفرینش کی چکی رواں ہو گئی، ہم بھی پہیہ گُھماتے ہوئے چل پڑے
ایک مُدت ہوئی مر چکے تھے مگر، ایٹمی تازیانوں کی للکار پر
اپنی فرسُودہ قبروں سے سُوکھی ہوئی، ہڈیاں کھڑکھڑاتے ہوئے چل پڑے
شہرِ جاناں سے نکلے تو مہلت کہاں، کُوچ کرنے کو تیار تھا کارواں
یاد کے دشت میں وقت کے سارباں، اپنے ناقے بڑھاتے ہوئے چل پڑے
دیکھتا ہوں میں تاریخ کے اوّلیں جینیاتی قبیلوں کے حمام سے
میرے خوں کی حرارت میں پُرکھے مِرے، کیسے نعرے لگاتے ہوئے چل پڑے
زُحل کے پاس ہی دائروں میں کہیں، آخری بار بربط پہ نغمے سُنے
پھر خلا باز پریوں سے رُخصت ہوئے، اور پر پھڑپھڑاتے ہوئے چل پڑے
دیوتاؤں کی پلکوں سے سُورج گِرے، کشتیاں جل اٹھیں اور ملاح سب
یاس کی بانسُری ساحلوں پر بجاتے، مناجات گاتے ہوئے چل پڑے
عُمر کی راجدھانی میں آ کر رُکے، چند موسم کہ بوجھل تھے آلام سے
آنکھ جَھپکی تو یوں مثلِ بادِ صبا، یک بہ یک مُسکراتے ہوئے چل پڑے
عابد رضا
No comments:
Post a Comment