تیری دنیا میں چار دن ہوں میں
اس لیے بھی تو مطمئن ہوں میں
اِکتفا کرنا ہو گا تھوڑے پر
ایک مزدور کا ٹِفن ہوں میں
شاید اک رِشتہ پاس لائے ہمیں
ویسے تو دور کا کزن ہوں میں
اک طرف ہجر اک طرف ہے وصل
جیسے دو کاغذوں میں پِن ہوں میں
روز گِرتے ہیں دل میں غم دو چار
شاعرِ نو کا ڈسٹ بِن ہوں میں
میں نہیں، پر مِرا خیال تو ہے
تُو مجھے اپنے ساتھ گِن، ہوں میں
ہم قیامت میں ساتھ ہوں گے، مگر
کیا قیامت ہے تیرے بِن ہوں میں
صابر آفاق
No comments:
Post a Comment