Friday, 30 September 2022

زنجیر ہلتی رہتی ہے مضمون بدلتا رہتا ہے

زنجیر ہلتی رہتی ہے


دن تو سب اک جیسے ہوتے ہیں

اپنے اپنے قد اپنی اپنی بینائی سے

مضمون بدلتا رہتا ہے

دنیا گرد و پیش کو قطرہ قطرہ

جوڑ کے زندہ کرتی ہے

الف سے ب تک

ب سے ے تک


کب سوچا تھا، بھاگتے بھاگتے

خود سے ہی ٹکرا کرلوٹ آئیں گے

بے ترتیب مکانوں میں سناٹا

کان کی لَو سے چپک کے اتنا اونچا

بولے گا کہ نیندیں مستی کے درجے میں

صفر سے نیچے گر جائیں گی

چائے کی سُرکی سے پہلے

غفلت کا دیباچہ لکھنا پڑ جائے گا


نا امیدی اور امید میں ایک تعلق

جُڑی ہوئی دیواروں جیسا باہم بھی متوازی بھی

اس رشتے کو جیون کا سر نامہ کر لیں

تو دل عجلت بستر چکنائی سے بھر جاتا ہے

کاغذ، قلم، کتابیں پِل پِل کرنے لگتے ہیں


درد امانت ہے لیکن کس طاق پہ رکھیں

عجلت میں روحانی یا جسمانی ہونا مشکل ہے

دل سے دل آنکھوں سے آنکھیں جڑیں

تو کرموں کا پہیہ چلتا ہے

عشق نبھانے کو پورا انسان ضروری ہے جس کو دیکھ کے

پودے پھولوں، پیڑ پھلوں سے بھر جاتے ہیں

جس سے مل کے حیرت کو تعویذ بنانا پڑتا ہے


الٹے سالوں کی گنتی میں غلطی کا امکان ہے

ایک خجالت ہے جو یکتائی سے لیپی

دیواروں پہ اُگتی ہے

بڑھتے بڑھتے جسموں کے پر پیچ

دُھندلکوں میں جا پڑتی ہے

ایسا لگتا ہے ہم آنکھوں کے پردوں سے لے کر

آنتوں تک آلودہ ہیں


جس کو سوچا اس کو دیکھنے

چُھو لینے کی خواہش ہے

تم کہتے ہو کل دیکھیں گے

کل چُھو لیں گے

آج تمہاری بے چینی دو سوتر بڑھی ہوئی ہے

کل کیا دن پچھم کے اُفقی خط سے ناک نکالے گا

یا چلو بھر حیرت کے سناٹوں میں تم

اپنے آپ پہ اُترو گے

دن کیا

دن تو سب اک جیسے ہوتے ہیں

ہاتھ سلامت رہیں تو دل بھی

دردِ دل بھی قائم ہر شے زندہ

ہر شے روشن

بے خبری سے رخصت لے کر

ہم حاضر بھی اور شریک بھی

اپنی عرضی کے خود کاتب

اور خود ہی مکتوب الیہ

تم کہتے ہو کل دیکھیں گے


فرخ یار 

No comments:

Post a Comment