محبت کے ہر حبس کا ذائقہ دائمی ہے
بہت کم تنفس ہوں
شاید خلا کے کسی کیسری منطقے
کی بلندی پہ ہوں
میں یہاں تک کسی کُونج کے ساتھ
اُڑتے ہوئے بےقراری کا
ہر ذائقہ چکھ کے پہنچا ہوں
اور درد کی تتلیوں کو کسی گُل کی
لو کی کشش میں بندھے
میں نے سو بار دیکھا
مہک اور رنگوں کی نم روشنی کے سوا
گُل کی قسمت میں کیا ہے
مگر تتلیاں بھی تو
بس سر بسر رنگ ہیں
رنگ ممکن ہے
رنگوں کی دنیا میں
رہ کر ہی اوجِ مسرت کے پل کھینچتا ہو
مہک کی کہانی کے سب لفظ
گُل کو دل و جاں سے ازبر ہیں
یہ شبد تتلی کی وحشت
کو مہمیز کرنے میں اکسیر کا کام کرتے ہیں
پر مجھ میں اور خواب کی کُونج میں
کون سی چیز ہے
جس سے اتنا بندھا میں
کہ اب پر شکستہ
خلا کے شجر کی جُھکی شاخ پر
کم تنفس بھی ہوں
اور بے حد اکیلا اکیلا بھی ہوں
یہ تعلق کے وعدے
مجرّد ہیں پر اپنے ہونے کی خوشبو
گُلِ دل سے بے انتہا کھینچتے ہیں
یہ خُوشبو اگر سانس سے رُوٹھ جائے
تو احساس کی شاخ پر
ان کِھلے دل کی جانب نہیں دیکھنا تم
محبت کے ہر حبس کا ذائقہ دائمی ہے
شہزاد اظہر
No comments:
Post a Comment