Thursday 30 June 2022

خاکستر کہ جب مر جاؤں

خاکستر


بس اتنا چاہتا ہوں میں

کہ جب مر جاؤں

میری راکھ کے ذروں کو 

ہر اس شہر کی مٹی میں دفنانا

جہاں جہاں تنہا تھی وہ

کوڑے کا ڈبا کہتا ہے مجھ سے نفرت مت کرو

 کوڑے کا ڈبا کہتا ہے

مجھ سے نفرت مت کرو

کبھی میرے بھیتر جھانک کر دیکھو

میں تمہارا دل ہوں

مجھ سے نفرت مت کرو

میں تو جوٹھے کھانوں، باسی روٹی کے ٹکڑوں اور

جو خواب میں ہوا تھا واقعی نہ ہو

 جو خواب میں ہوا تھا، واقعی نہ ہو

کہ میں پکارتا رہوں، کوئی نہ ہو

چراغ بے سبب تو رو نہیں رہے

جو شب گزر رہی ہے، آخری نہ ہو

جسے سکوتِ مرگ کا نشاں کہیں

یہ خامشی کہیں وہ خامشی نہ ہو

میں تمہارے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا

 میں تمہارے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا 

میں جیسا ہوں مجھے ویسا قبول کرو 

میں نے اپنے ہاتھ خود نہیں بنائے

اور

نہ ہی آنکھیں کسی نیلامی میں خریدی ہیں 

کیا اس انسان کو محبت کرنے کا کوئی حق نہیں 

آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے

 آرزو ناکام ہو کر رہ گئی ہے

زندگی الزام ہو کر رہ گئی ہے

خواب تعبیروں کے معنی پوچھتے ہیں

نیند بے انجام ہو کر رہ گئی ہے

یاد بھی قاتل کی ہے شمشیرِ قاتل

رات خوں آشام ہو کر گئی ہے

اداسی تجھے خبر ہے

 اداسی

تجھے خبر ہے

تُو نے جس آنکھ کی رعنائی میں ویرانی بکھیری ہے

اس کی چلمن کے اٹھنے پر زندگی اِٹھلا کر واری ہوا کرتی تھی

تُو نے جس دل کی امیری کو فقیری دی ہے

اس کی ہر لے کی سرمستی پر

تمہاری یادوں کی کالی بلی ہر ایک رستے کو کاٹتی ہے

 کھوٹی مسافت


تمہارے جانے کے بعد میں نے

وہ سب کتابیں، تمہارے ہوتے جو شیلف میں بند ہو گئی تھیں

نکال کر ان کی گرد جھاڑی

اور ان کتابوں کے ان مناظر میں کھو گیا 

جن کو چھوڑ کر میں تمہاری صورت میں کھو گیا تھا

نظر کے زاغ ارمانوں کے کرمک مر چکے ہوں گے

 نظر کے زاغ، ارمانوں کے کرمک مر چکے ہوں گے

یہ جتنے روگ بھی ہیں مجھ کو لاحق مر چکے ہوں گے

یہ ہم جو خود سے لڑنے کے لیے خندق بناتے ہیں

سمجھتے ہیں کسی دن زیرِ خندق مر چکے ہوں گے

چٹائی اور ہکے(حقے) روئیں گے تنہائی کو اپنی

لگائے بیٹھے ہیں جو لوگ بیٹھک مر چکے ہوں گے

رفاقت کیا اذیت ہے، نہیں تو

 رفاقت کیا اذیت ہے نہیں تو

مجھے تم سے محبت ہے، نہیں تو

مجھے کیا خوفِ فرقت ہے، نہیں تو

یہ غم کیا دل کی عادت ہے، نہیں تو

کسی سے کچھ شکایت ہے، نہیں تو


دعا کے بِن، کسی فریاد کے بِن

محبت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی

 محبت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی

شروع حق سے ہوئی اور شک پہ ختم ہوئی

میں اپنی روح کی تمثیل کی تلاش میں تھا

مِری تلاش تمہاری مہک پہ ختم ہوئی

وہ خامشی جو کسی اور خامشی میں ڈھلی

کوئی سڑک تھی جو اگلی سڑک پہ ختم ہوئی

اک عارضی مفاد میں گھر بار بیچ کر

اک عارضی مفاد میں گھر بار بیچ کر 

بیساکھیاں خرید لیں دستار بیچ کر

کچھ لوگ بے ضمیر ہیں نسلوں سے بے ضمیر

جو معتبر ہیں شہر میں کردار بیچ کر

اب جان امتحان کی مشکل میں آ چکی 

 اب جان کی امان ہے گفتار بیچ کر

کوئی بھی پیڑ ہو وہ پہلے پانی چاہتا ہے

 کوئی بھی پیڑ ہو وہ پہلے پانی چاہتا ہے

میاں یہ عشق ہے اور یہ جوانی چاہتا ہے

کسی کو اتنا میسر بھی کوئی شخص نہ ہو

یہ میرا دل ہے کہ اب رائیگانی چاہتا ہے

میں نے سنبھالا ہوا ہے یہ ہجر بھی کب سے

وہ برسوں بعد کوئی اور نشانی چاہتا ہے

تیری آنکھیں ستاروں آبشاروں سے سجی آنکھیں

 تیری آنکھیں 


تیری آنکھیں 

ستاروں، آبشاروں سے سجی آنکھیں 

بلوری

بھوری بادامی، کٹاری

شاعری کے بوجھ سے، نظریں چُراتا ہوں

تو کہاں کہاں سے بڑھا گیا میری داستاں میرے قصہ گو

تو کہاں کہاں سے بڑھا گیا میری داستاں میرے قِصہ گو

کوئی تیسرا تو نہ تھا کبھی یہاں درمیاں میرے قصہ گو

یہ عذاب اس سے بھی ہے سوا کہ بچھڑ کے تجھ سے میں آؤں تو

میرے تن سے چُنتے ہیں جس طرح میری کرچیاں میرے قصہ گو

یہ کمال حسنِ بیاں کا ہے کہ بیانِ حسن کا سحر ہے

کبھی مل جو بیٹھیں تو دیکھنا تِرے رازداں میرے قصہ گو

رات کٹے گی پو پھوٹے گی وقت کی آنکھیں دیکھیں گی

یکم مئی یوم مزدور کے حوالے سے


رات کٹے گی پو پھوٹے گی

وقت کی آنکھیں دیکھیں گی

ہاتھ کی روٹی کھانے والے

محل مینار بنانے والے

آدھے پیٹ نہ سوئیں گے

Wednesday 29 June 2022

آزما لے ہنر مرے صبر کے پیمانے دیکھ

 آزما لے ہنر

کیسے لگتے ہیں پھر

تاک پر نشانے دیکھ

آہ نہ نکلے گی ضبط کی قسم

اب تُو مِرے 

صبر کے پیمانے دیکھ 

جانے پاگل سی لڑکی کہاں کھو گئی

 میں نے رنج و الم کے سوا

 آج تک کیا دیا ہے تمہیں

اور تم ہو کہ پھر بھی بُھلاتے نہیں 

چھوڑ جاتے نہیں

جب کبھی خلوتوں میں وہ کہتی

تو خود اُس کی آنکھیں چھلکنے کو آ جاتی تھیں 

نمکین ہے کہیں تو کہیں بے نمک نمی

 نمکین ہے کہیں تو کہیں بے نمک، نمی

اُتری ہوئی ہے مجھ میں بڑی دور تک نمی

ہوتا ہے ہجر پانچ عناصر پہ مشتمل

امید، انتظار، اداسی، کسک، نمی

پھر سوچا، عنقریب تہی چشم ہو نہ جاؤں

پہلے تو میں لٹاتا رہا، بے دھڑک، نمی

میرا کوئی دوست نہیں مجھے معلوم ہے

 میرا کوئی دوست نہیں

چیخیں مجھے کبھی رہا نہیں کرتیں 

مجھے معلوم ہے

ہر منظر میں ایک چیخ چھپی ہے

میں جہاں بھی جاتا ہوں 

کوئی نہ کوئی چیخ مجھے پہچان لیتی ہے 

بدن کے طاق پہ کچھ دیر جل کے دیکھ مجھے

 بدن کے طاق پہ کچھ دیر جل کے دیکھ مجھے

کبھی چراغ کے پیکر میں ڈھل کے دیکھ مجھے

تجھے علیل نہ کر دے کہیں یہ چارہ گری

مجھے سنبھالنے والے! سنبھل کے دیکھ مجھے

میں دھوپ بن کے تِرے صحن میں اترتا ہوں

تُو خواب گاہ سے باہر نکل کے دیکھ مجھے

میں رہوں گی کس کی امان میں مرا کیا بچا ہے مکان میں

 میں رہوں گی کس کی امان میں؟ مِرا کیا بچا ہے مکان میں؟

مِرے بام و در، مِری چھت کا جس پہ تھا انحصار، چلا گیا

یہ جگہ نہیں ہے سوال کی، کسی گریے، آنسو، ملال کی

کہ تماش بین بچے ہیں بس،۔ مِرا سوگوار چلا گیا

مِری چشمِ تر سے ذرا پرے، رگِ جاں کے سائے میں، دل کے پاس

کوئی تھا شقی، جو یہ کہہ رہا تھا؛ وہ اب کی بار چلا گیا

دلداری کا وہ عالم ہے جیسے دنیاداری کا

 دلداری کا وہ عالم ہے جیسے دنیاداری کا

اس موم میں جس سے ملنا اس سے کہنا یاری کا

میں نے شہروں شہروں پھر کر موسم موسم دیکھا ہے

لیکن آنکھوں کو بھایا ہے موسم ژالہ باری کا

جس گڑیا کو کیچڑ سے میں باہر لے کر آیا تھا

میرے ہی ہاتھ اس پر آیا دھبہ کاروکاری کا

محبت تب بھی ممکن تھی

 محبت تب بھی ممکن تھی

کہ جب سانسوں کی گٹھڑی کُھلنے والی تھی

مِرے سینے میں دھڑکن رک رہی تھی

جب میں مر رہا تھا

میں محبت کر رہا تھا

تمہاری انگلیاں میری ہتھیلی پر دعائیں لکھ رہی تھیں 

کرنے والے نے ہی کی دیکھ عنایت کیسی

 کرنے والے نے ہی کی دیکھ عنایت کیسی

تیرا پھر مجھ سے گلہ کیسا، شکایت کیسی

اب ہمیں دُور سے پہچان لیا جاتا ہے

عشق میں ہم بھی بنا بیٹھے ہیں صورت کیسی

کیوں کھڑے منہ کو تکے جاتے ہو میں ہارا ہوں

میرا سر کاٹ کے لے جاؤ، اجازت کیسی

آخری خودکشی سے ذرا پہلے ایک دوست سے مشورہ

 آخری خودکشی سے ذرا پہلے ایک دوست سے مشورہ


اگر میں خودکشی کر لوں تو 

میری سرخ ٹائی کس کے استعمال میں آئے گی؟

میرے کمرے میں پچھلی رات کو اٹھ کر کون ٹہلا کرے گا؟

میری عینک کے شیشے کون صاف کرے گا؟

میرے دیر تک جاگتے رہنے کی عادت کا کیا بنے گا؟

یار من تو جو کر سخن تجھے کہہ سناؤں میں حال من

یارِ من

ترا بانکپن، ترا بھولپن

توبہ شکن

تُو جو کر سخن

تجھے کہہ سناؤں

شبِ ہجر کی ساری گھٹن

ہم بھی تنہا شام بھی ساتھ میں جنگل تھا

ہم بھی تنہا، شام بھی، ساتھ میں جنگل تھا

اس دن جن نازک حالات میں جنگل تھا

پیڑوں کے تن جھوم اٹھے تھے بارش میِں 

تیز ہوا تھی، اور جذبات میں جنگل تھا

یہ تو تم نے چُھو کر پھول کھلائے ہیں

پہلے میرے محسوسات میں جنگل تھا

جیے جا رہے ہیںلبوں پر ان کے حیات آفریں ہنسی نہ رہی

لبوں پر ان کے حیات آفریں ہنسی نہ رہی

گلوں میں روح ستاروں میں روشنی نہ رہی

خدا شناسوں کی پہچان ہی کوئی نہ رہی

کہ سرکشی بھی با انداز سرکشی نہ رہی

فسانہ گردشِ دوراں کا نظم کر لیتے

مگر نگاہ میں ان کی وہ برہمی نہ رہی

بے شکل شباہت ہے بے ربط سراپا ہے

 بے شکل شباہت ہے بے ربط سراپا ہے

جذبات بھی جامد ہیں احساس بھی تشنہ ہے

بہتا ہوا دریا ہے اٹھتی ہوئی موجیں ہیں

صدیوں کی مسافت میں لمحوں کا تماشا ہے

تہذیب کا سناٹا ساکن ہے یہاں شاید

ویران حویلی کی دہلیز پہ پردہ ہے

ہجر نے اب سوچا ہے دل اکیلا بہتر ہے

دل اکیلا بہتر ہے


ہجر نے اب سوچا ہے 

دل اکیلا بہتر ہے

اب کی بار پھولوں نے 

تتلیوں کو نوچا ہے 

سرگوشیوں کے گیتوں کو 

Tuesday 28 June 2022

کہنے کو ہم ایک ہی دنیا کے رہنے والے ہیں

 بیگانگی


آدھی رات اُدھر، آدھی رات اِدھر

مدھم بلب کی روشنی میں

میرے بستر پر ایک چیونٹی چل رہی ہے

ننھی ساتھی

تمہاری دنیا میں اس وقت دن ہے یا رات؟

بدن پہ ہجر کا تھپڑ رسید کرنے تک

 بدن پہ ہجر کا تھپڑ رسید کرنے تک

تِرا وصال تھا مٹی پلید کرنے تک

میں جھوٹ بول کے بیٹے کو گھر تو لے آیا

 نہ سو سکا میں کھلونے خرید کرنے تک

مجھے شمار نہ کرنا تم اپنی دنیا میں 

خدا سے آخری گفت و شنید کرنے تک

محبت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی

 محبت ایسی عبادت کسک پہ ختم ہوئی

شروع حق سے ہوئی اور شک پہ ختم ہوئی

میں اپنی روح کی تمثیل کی تلاش میں تھا

مِری تلاش تمہاری مہک پہ ختم ہوئی

وہ خامشی جو کسی اور خامشی میں ڈھلی

کوئی سڑک تھی جو اگلی سڑک پہ ختم ہوئی

ساقئ روز ازل یہ کیا پلایا تھا مجھے

ساقئ روزِ ازل یہ کیا پلایا تھا مجھے

کچھ خبر بھی ہے تجھے، کب ہوش آیا تھا مجھے

شبنم آلودہ کلی ہوں، جوشِ حسرت دل میں ہے

اب ہنسائے بھی وہی جس نے رلایا تھا مجھے

دل کی کوشش سے حیاتِ جاودانی مل گئی

آپ نے تو اپنے امکاں بھر مٹایا تھا مجھے

یہ ممکن ہے کہ اک دن ٹوٹ جائے آزمانے سے

 یہ ممکن ہے کہ اک دن ٹوٹ جائے آزمانے سے

انا وہ شاخ ہے جو جھک نہیں سکتی جھکانے سے

مِری بھی فکر کو جانے کہاں سے پر نکل آئے

پرندے بھر رہے تھے جب اڑانیں آشیانے سے

مِرے اندر ٹراموں کا، بسوں کا شور رہتا ہے

کبھی یہ دل دھڑکتا تھا کسی کے آنے جانے سے

ساتھ میرے کبھی دو روز گزارے ہوتے

 ساتھ میرے کبھی دو روز گزارے ہوتے

تیری آنکھوں میں بھی دو چار ستارے ہوتے

میرے کالر پہ بھی اک پھول دکھائی دیتا

تیری چادر پہ بھی آکاش کے تارے ہوتے

ڈوبتا میں بھی تیرے پیار کے دریاؤں میں

دور تجھ سے بھی زمانے کے کنارے ہوتے

جس نے ہنسایا اس نے رلانا تو تھا مجھے

 جس نے ہنسایا اس نے رُلانا تو تھا مجھے

اس عشق نے یہ دن بھی دِکھانا تو تھا مجھے

میں جانتا تھا میری اندھیروں سے جنگ ہے

سو خود کو اک چراغ بنانا تو تھا مجھے

یہ مختصر بھی تھی بڑی مشکل بھی تھی مگر

اس زندگی سے کام چلانا تو تھا مجھے

ہمارے دل کو بس ایک کھٹکا لگا ہوا ہے

 ہمارے دل کو بس ایک کھٹکا لگا ہوا ہے

یہاں شجر تھا، جہاں پہ کھمبا لگا ہوا ہے

کہیں ملے تو تِرے حوالے کریں گے خود کو

کچھ اور دن رُک، ہمارا پیچھا لگا ہوا ہے

تمام خوش ہیں کہ مل کے بیٹھے ہیں آج سارے

ہمارے دل میں دُکھوں کا میلہ لگا ہوا ہے

وادئ کشمیر جو ہر رنگ میں تھی بے نظیر

وادئ کشمیر جو ہر رنگ میں تھی بے نظیر

اہل دنیا جس کو کہتے تھے ہے ایرانِ صغیر

اک زمیں پر عکس جنت نام بھی تھا تابدار

تھے کرشمے بھی یہاں قدرت کے کتنے بے شمار


نسل آدم کس طرح کھاتی ہےاب سینے پہ تیر

شیخ ہو یا کوئی وانی، ڈار ہو یا کوئی میر

دسترس کی شام میں اس مفلسی کے دام میں

 دسترس کی شام میں


دسترس کی شام میں

اس مفلسی کے دام میں

بے معنی سے الزام میں

ریختہ ہوتے در و بام میں

لاچاری کے ابہام میں

کبھی کبھی تو نہ ہو گی کبھی ہوا کرے گی

 کبھی کبھی تو نہ ہو گی کبھی ہُوا کرے گی

ضرور تجھ کو کسی کی کمی ہوا کرے گی

رہے گی ایسے ہی رونق تیرے محلے کی

گزرنے والے نہ ہوں گے گلی ہوا کرے گی

جو ہم نہ ہوں گے تو پھر کون تم سے مانگے گا

تمہیں ہماری ضرورت سخی! ہوا کرے گی

اس کونے میں کھڑکی اچھی لگتی ہے

 اس کونے میں کھڑکی اچھی لگتی ہے

کھڑکی میں تُو ہنستی اچھی لگتی ہے

ان ہاتھوں پر آنسو مت ٹپکایا کر

ان ہاتھوں پر مہندی اچھی لگتی ہے

دیکھ نظر لگ جاتی ہے ان یاروں کی

دیکھ، محبت چوری اچھی لگتی ہے

عشق کا گر کوئی پیمانہ مقرر ہوتا

 عشق کا گر کوئی پیمانہ مقرر ہوتا

یار! میں ہی ترا دیوانہ مقرر ہوتا

روز کے لاکھوں کما لیتا میں گھر بیٹھے ہوئے

گر تِری یاد کا عوضانہ مقرر ہوتا

سلطنت ہوتی اگر گہری اُداسی کی کوئی

یہ فقیر افسرِ شاہانہ مقرر ہوتا

تمہیں پتہ ہے تم اس جہان کی نہیں ہو

 ''Sirius-the-scorcher''ستارہ سیریس 


تمہیں پتہ ہے

تم اس جہان کی نہیں ہو

تمہیں پتہ ہے

تم اس ڈائیمنشن کی بھی نہیں ہو

تم دور پار کہیں کسی پیرالل یونیورس میں

Monday 27 June 2022

لکھیں جو شعر ہوا کے سپرد کرتے ہیں

 لکھیں جو شعر ہوا کے سپرد کرتے ہیں

تمہاری ضدی انا کے سپرد کرتے ہیں

تمہارے شہر میں جائیں، برس پڑیں تم پر

خیال اپنے گھٹا کے سپرد کرتے ہیں

تِری طلب تِری حسرت لیے ہوئے دل میں

ہم اپنے لفظ، دعا کے سپرد کرتے ہیں

اس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے

 اس کی خوشبو میری غزلوں میں سِمٹ آئی ہے

نام کا نام ہے، رُسوائی کی رُسوائی ہے

دل ہے اک اور دو عالم کا تمنائی ہے

دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے

ہجر کی رات ہےاور ان کے تصور کا چراغ

بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے

شاعری چالاک ہوتی ہے بھیس بدل کر

 شاعری چالاک ہوتی ہے


شاعری چالاک ہوتی ہے

بھیس بدل کر ستمگروں کی

نظروں سے چھپی رہتی ہے

جب میں دوسروں کے کھیتوں میں

ہل چلاتا ہوں

وہ کیا کہہ گئے مجھ کو کیا کہتے کہتے

 وہ کیا کہہ گئے مجھ کو کیا کہتے کہتے 

بھلا کہہ گئے وہ برا کہتے کہتے 

کہیں یہ نہ ہو آنکھ بھر آئے قاصد 

مِری داستانِ وفا کہتے کہتے 

اٹھا تھا میں کچھ ان سے کہنے کو، لیکن 

‘‘زباں رک گئی بارہا ’’کہتے کہتے

آؤ کہ ہم ایک دوسرے کی قدر کرنا سیکھ لیں

بیا تا قدرِ یک دیگر بدانیم

کہ تا ناگہ ز یک دیگر نمانیم

آؤ کہ ہم ایک دوسرے کی قدر کرنا سیکھ لیں 

کہیں ہم اچانک ہی ایک دوسرے سے محروم نہ ہو جائیں

غرض‌ ہا تیره دارد دوستی را

غرض‌ ہا را چرا از دل نرانیم

اک دیا سا کف امید پہ دھر جاتے ہو

 اک دِیا سا کفِ امید پہ دھر جاتے ہو

خواب بن کر چلے آتے ہو گزر جاتے ہو 

تم نے سمجھا ہی نہیں آنکھ میں ٹھہرے دکھ کو

تم بھی ہنستی ہوئی تصویر پہ مر جاتے ہو

تمہیں اندازہ نہیں آگ کے پھیلاؤ کا

روز جنگل کی طرف لے کے شرر جاتے ہو

محبتوں کو وفا کا اصول کر ہی لیا

 محبتوں کو وفا کا اصول کر ہی لیا

نوید ہو کہ یہ کارِ فضول کر ہی لیا

نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے

دلوں کو زخم، سو چہروں کو دھول کر ہی لیا

گلاب جن کے لبوں سے چرا کے لائیں رنگ

برا ہو وقت کا ان کو ببول کر ہی لیا

میرا بس چلے تو تو سمندروں کی لہروں سے

 میرا بس چلے

تو سمندروں کی لہروں سے دل بنا کر 

ان کے اندر تمہارا نام کندہ کر دوں

میرا بس چلے تو

پھولوں سے تمہارا نام لکھ کر 

کسی سنسان قبرستان میں لٹکا دوں 

ان تیز رابطوں میں کہیں کھو گیا تو پھر

 ان تیز رابطوں میں کہیں کھو گیا تو پھر

یہ آشنا بھی ہو گیا نا آشنا تو پھر

اتنا نہ شش جہات کے پنجرے پہ ناز کر

میں ساتویں طرف کو اگر چل دیا تو پھر

اِس بار میرے ذہن کا خدشہ تو دیکھیۓ

اُس کو بلا کے خود نہ وہاں جا سکا تو پھر

ہم نے اپنے لیے محبت کو چن لیا ہے

 ہم نے پہلا جرم اپنی پیدائش کے دن کیا تھا

ہمارے سانس لینے سے پہلے

چیخ کر رونے پر پابندی لگا دی گئی تھی

چپ میں لپیٹ کر ہمیں ہماری ماؤں کے حوالے کر دیا گیا

اس سے پہلے انہیں

بے آواز گیت یاد کروائے گئے

محبت وصل و ہجراں کی عجب سی اک کہانی ہے

محبت


محبت وصل و ہجراں کی 

عجب سی اک کہانی ہے 

کہ جیسے رائیگانی ہے 

کسی بھی خواب کو تعبیر کا در تک نہیں مِلتا 

جو دل پہ زخم لگتا ہے نہیں سِلتا 

تڑپتا ہے ہر اک دل 

کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا

 کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا

دل کے نگر میں شور تھا کیسا مچا ہوا

تم چھپ گئے تھے جسم کی دیوار سے پرے

اک شخص پھر رہا تھا تمہیں ڈھونڈتا ہوا

اک سایہ کل ملا تھا تِرے گھر کے آس پاس

حیران کھویا کھویا سا کچھ سوچتا ہوا

بات اظہار تک چلی آئی

 بات اظہار تک چلی آئی

لالی رخسار تک چلی آئی

ڈھونڈتے ڈھونڈتے نظر تجھ کو

تیرے دیدار تک چلی آئی

تیرے جانے کی جب خبر پھیلی

تیرگی وار تک چلی آئی

شب کے طوفاں میں دب گئے سارے

مصلحت 


شب کے طوفاں میں دب گئے سارے 

ضو کے غازے، شفق کے گلگونے 

دل، تصوّر، قیاس سب تنہا 

کشت زار حیات ہیں سونے

کچھ ستارے بکھیر رکھے ہیں

وقفہ نیم شب میں آنسو نے

ماں محسوس ہوتی ہے

 ماں محسوس ہوتی ہے


نظر کے سامنے جیسے کبھی وہ پھول کی مانند

نظر سے دور جو جائے

تو خوشبو بن کر آتی ہے

ماں محسوس ہوتی ہے

خوشبو پھول زادی ہو، کسی آنچل سے نکلی ہو

Sunday 26 June 2022

کچھ بڑھایا کچھ نبیڑا رکھ دیا ہے طاق پر

کچھ بڑھایا کچھ نبیڑا رکھ دیا ہے طاق پر

زندگی! تیرا بکھیڑا رکھ دیا ہے طاق پر

کیا بھنور اور کیا منافق ناخدا کا خوف اب

او محبت! تیرا بیڑا رکھ دیا ہے طاق پر

جب جنوں کی بے نوائی کا تمسخر اڑ گیا

تب رفو دامن ادھیڑا رکھ دیا ہے طاق پر

ہوا کا تخت بچھاتا ہوں رقص کرتا ہوں

ہوا کا تخت بچھاتا ہوں، رقص کرتا ہوں

بدن چراغ بناتا ہوں، رقص کرتا ہوں

میں بیٹھ جاتا ہوں تکیہ لگا کے باطن میں

خود اپنی بزم سجاتا ہوں،رقص کرتا ہوں

زمین ہانپنے لگتی ہے اک جگہ رُک کر

میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہوں، رقص کرتا ہوں

مری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا

 مِری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا

مگر کسی کی یاد نے معاوضہ بڑھا دیا

سب اپنے اشک پونچھ لیں اداسیاں سمیٹ لیں

کہ مسکرانا فرض ہے، اگر وہ مسکرا دیا

وہ لمس، لاکھ زندگی کی کوششوں میں تھا مگر

دلوں میں ایسی برف تھی کہ خون تک جما دیا

زندگی کوئی توازن مرے دن رات میں لا

 زندگی کوئی توازن مِرے دن رات میں لا

 کچھ تو آسودگی رنجور خیالات میں لا

تُو ذرا دیر تو جذبات کی موجوں سے نکل

کوئی وقفہ بھی  مِری جان! عنایات میں لا

ہجر زادی تجھے اتنی ہے اگر میری طلب

مانگ کر عشق کی درگاہ سے خیرات میں لا

دیواروں کے کان ہوتے ہیں اچھا ہے یہ

 دیواروں کے کان ہوتے ہیں اچھا ہے یہ

اس پہ یہ بھی اچھا ہے کہ جج نئیں کرتیں

بندے کی سب سن لیتی ہیں، چپ رہتی ہیں

یہ نئیں کہتیں؛ سِمپھتی کے بھوکے لگتے ہو

یہ نئیں کہتیں؛ دھاڑیں مار کے روتے کیوں ہو

چھت کی جانب دیکھ کے آہیں بھرتے کیوں ہو

بجھتے ہوئے دیے کو بچانے لگی ہوں میں

 بجھتے ہوئے دِیے کو بچانے لگی ہوں میں

خود کو ہوا کے سامنے لانے لگی ہوں میں

یہ جرأتِ نگاہ کسی اور میں نہیں

سورج کو دیکھ آنکھ دِکھانے لگی ہوں میں

اے گردِ خواہشات! میری ہم سفر نہ ہو

دامن یہاں سے جھاڑ کے جانے لگی ہوں میں

ہر لفظ کو کاغذ پہ اتارا نہیں جاتا

 ہر لفظ کو کاغذ پہ اُتارا نہیں جاتا​

ہر نام سرِ عام پکارا نہیں جاتا​

ہوتی ہیں محبت میں کئی راز کی باتیں​

ویسے ہی اس کھیل میں ہارا نہیں جاتا​

آنکھوں میں لگایا نہیں جاتا یونہی کاجل​

زلفوں کو بلاوجہ سنوارا نہیں جاتا

عجیب بے تکی سی نظم ہے نہیں پڑھو

 بکھرتے خواص 

ہوا ہوا میں گم ہوئی 

ڈھول اپنی تھاپ پر خودی ہوا ہے محوِ رقص 

پانیوں کو دِکھ رہا ہے خود میں صرف اپنا عکس 

قلم سیاہیوں میں ڈوب کر کبھی نہ پھر اُبھر سکا 

شجر تمہارے ہاتھ کا کبھی نہیں اُکھڑ سکا 

جو سورج ہو تو ہر منظر اجالا کیوں نہیں کرتے

 جو سورج ہو تو ہر منظر اجالا کیوں نہیں کرتے

یہ آٹھوں پہر کی راتیں، سویرا کیوں نہیں کرتے

تعجب ہے مجھی کو اپنی محفل میں نہیں دیکھا

نہیں دیکھا اگر تم نے تو دیکھا کیوں نہیں کرتے

چراتا ہے وہ پہلے نیند پھر شوخی سے کہتا ہے

یہ شب بھر جاگتے رہتے ہو سویا کیوں نہیں کرتے

ہر آس یہاں ویراں ویراں

 ہر آس یہاں ویراں ویراں

ہر خواہش ہے لرزاں لرزاں

گھر ہو یا شہر ہو ہر جانب

اک نومیدی رقصاں رقصاں

کچھ چہرے دھندلے دھندلے ہیں

کہیں آنکھیں حسن شناس نہیں

مجھے انتظار رہتا ہے

 مجھے انتظار رہتا ہے


بارش کے بعد پانی پہ

بنی اک شبیہہ ہلکورے لیتی ہے

رات کے بعد ایک خواب ڈر کر

پلکوں سے اترتا ہے

کوئی آنکھیں موندے محبت 

تم کتنے خوبصورت ہو

 تم کتنے خوبصورت ہو


مجھے کچھ اپنے جیسے لفظ دو تو میں بھی کچھ لکھوں

مجھے اچھا نہیں لگتا

تِری آنکھوں کے بارے یہ لکھوں کہ جھیل کی گہرائیاں

جس جا پہ تھک جائیں

وہاں پر تیری آنکھوں کے کنارے راج کرتے ہیں

آنکھ مائل ہو جب نمی کی طرف

 آنکھ مائل ہو جب نمی کی طرف

کیسے جائے کوئی خوشی کی طرف

گر یہ مُمکن ہُوا تو وعدہ ہے

لوٹ آئیں گے زندگی کی طرف

روز دل کو لگام ڈالتا ہوں

روز جاتا ہے خُودکشی کی طرف

ہمارے زخموں سے روشنی پھوٹنے لگی ہے

ہمارے زخموں سے روشنی پھوٹنے لگی ہے، خوشی ہوئی ہے

اُداس چہروں پہ مُدتوں بعد تازگی ہے،۔ خوشی ہوئی ہے

کئی زمانوں سے منتظر تھیں جو آنکھیں روشن سی ہو گئی ہیں

بنفشی ہونٹوں پہ کوئلوں جیسی نغمگی ہے،۔ خوشی ہوئی ہے

جو داغ ماتھوں پہ لگ گئے تھے وہ دُھل چکے ہیں وہ مِٹ گئے ہیں

سفید شالوں میں موتیے سی پاکیزگی ہے،۔ خوشی ہوئی ہے

Saturday 25 June 2022

آم جو کھائے وہ للچائے جو نہ کھائے وہ پچھتائے

 آم جو کھائے وہ للچائے 

جو نہ کھائے وہ پچھتائے 

بھینی بھینی خوشبو آئے 

جو سب کے ہی من کو بھائے 

لنگڑا چونسہ اور دسہری 

کوئی نہیں ہے ان کا بیری 

اور آم آم ہی نہیں بھرپور جام ہے

 در مدح آم


شاہ اودھ سے فون پہ کل میں نے بات کی 

اسم گرامی شاہ کا عبدالسلام ہے 

پوچھا کہ لکھنؤ میں ہیں میں نے کہا کہ ہاں 

بولے کہ یہ بتائیے کے دن قیام ہے 

میں نے کہا کہ آج ہی آیا ہوں یا اخی 

یوں تو خلوص شاہ میں کس کو کلام ہے 

پیڑ گنے وہ باغ ہے جس کا ہمیں تو آم سے کام

 کام سے بڑھ کر تھا جن کو جاہ و اکرام سے کام

ان کے کام اگر دیکھیں تو ہیں بس عام سے کام

جن کا کام بنانا چاہا ان سے بگڑ گئی

اسی لیے اب ہم رکھتے ہیں اپنے کام سے کام

کوئی نہ کوئی نئی مصیبت روز کھڑی کرتے ہو

ایک بھی دن کرنے نہ دیا ہم کو آرام سے کام

بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے

 مثنوی در صفتِ انبہ


ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز

کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز

خامے کا صفحے پر رواں ہونا

شاخِ گل کا ہے گل فشاں ہونا

مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے

نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے

جو آم میں ہے وہ لب شیریں میں نہیں رس

 در مدحِ آم


جو آم میں ہے وہ لبِ شیریں میں نہیں رس

ریشوں میں ہے جو شیخ کی داڑھی سے مقدس

آتے ہیں نظر آم تو جاتے ہیں بدن کَس

لنگڑے بھی چلے آتے ہیں کھانے کو بنارس

ہونٹوں میں حسینوں کے جو امرس کا مزا ہے

یہ پھل کسی عاشق کی محبت کا صِلہ ہے

ہوں تیری ہی گر ہوئی وصول اور کسی کو

 "ہوں تیری ہی گر ہوئی وصول اور کسی کو"

محترمہ! سناؤ یہ اصول اور کسی کو

وہ صبرِ مجسم ہے وہ برداشت کی پیکر

چپ چاپ ہی کر لے گا قبول اور کسی کو

خود پر کی توجہ تو یہ احساس ہوا ہے

ہم دیتے رہے وقت فضول اور کسی کو

خیالوں ہی خیالوں میں نئی دنیا بساتا ہوں

 خیالوں ہی خیالوں میں نئی دنیا بساتا ہوں

مٹا کر نقشِ فرسودہ، نئے پیکر بناتا ہوں

محبت ہو تعلق ہو، کہ بس رسمی تعارف ہو

جو مجھ کو بھول جاتا ہے، میں اس کو بھول جاتا ہوں

بہت اچھی گزرتی ہے، جو ہمدم آ کے ملتے ہیں

کبھی میں دل کی سنتا ہوں، کبھی اپنی سناتا ہوں

کہو تو چلتے رہتے ہیں کہو تو لوٹ جاتے ہیں

 کہو تو لوٹ جاتے ہیں


ابھی تو بات لمحوں تک ہے

سالوں تک نہیں آئی

ابھی مُسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی

ابھی تو کوئی مجبوری خیالوں تک نہیں آئی

ابھی تو گرد پیروں تک ہے بالوں تک نہیں آئی

یہ دیوانے کبھی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے

 یہ دیوانے کبھی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے

گریباں چاک جب تک کر نہ لیں گے دم نہیں لیں گے

لہو دیں گے تو لیں گے پیار موتی ہم نہیں لیں گے

ہمیں پھولوں کے بدلے پھول دو ،شبنم نہیں لیں گے

یہ غم کس نے دیا ہے پوچھ مت اے ہم نشیں ہم سے

زمانہ لے رہا ہے نام اس کا، ہم نہیں لیں گے

ایلیئنز یہ کیسے لوگ ہیں

 ایلیئنز


یہ کیسے لوگ ہیں

اور کون سی نگری سے آئے ہیں

نجانے کون سے خطے کی بھاشا بولتے ہیں یہ

سمجھ میں کچھ نہیں آتا

بدن بھورے

Friday 24 June 2022

خطا کیسی کہ دل کا روگ بنتے جا رہے ہو تم

 خطا کیسی کہ دل کا روگ بنتے جا رہے ہو تم

مِرے دل کے مکینو! لوگ بنتے جا رہے ہو تم

مِری پرچھائی بن کر تم مِرے جیون میں در آئے

مگر یہ کیا؟ مِرا سنجوگ بنتے جا رہے ہو تم

تمہارے پاس آ کر اپنا پن محسوس ہوتا ہے

مِری ہر اک خوشی ہر سوگ بنتے جا رہے ہو تم

شام ڈھلے چپکے سے دل مہکا جاتی ہیں

 شام ڈھلے چپکے سے دل مہکا جاتی ہیں

جب کچھ یادیں چادر اوڑھے آ جاتی ہیں

دنیا آنکھوں کو معصوم سمجھتی ہے، پر

آنکھیں بھی تو گہرے روگ لگا جاتی ہیں

میرے بخت سہانے ہیں، سو روزانہ ہی

چڑیاں آ کر کوئی گیت سنا جاتی ہیں

تتلیوں کے پاؤں میں پھول پھول زنجیریں

 انکشاف


تتلیوں کے پاؤں میں پھول پھول زنجیریں

خوشبوؤں کی بستی میں خواب خواب تعبیریں

ہے بس ایک ہی خواہش

راگ رنگ دنیا میں

دل کی تنگ دنیا میں

کوئی میرے اشک پونچھے کوئی بہلائے مجھے

 کوئی میرے اشک پونچھے، کوئی بہلائے مجھے

یوں نہ ہو لوگو! اداسی راس آ جائے مجھے

عشق نے ایسے سہانے رنگ پہنائے مجھے

گل تو گل ہیں، چاند تارے دیکھنے آئے مجھے

ربِ گِریہ بخش! تجھ کو آنسوؤں کا واسطہ

دیکھ، کافی ہو چکی، اب عشق ہو جائے مجھے

کتنے سال بیت گئے ہیں اب گننے کی ضرورت بھی نہیں

 اٹکا ہوا خواب


کتنے سال بیت گئے ہیں

اب گننے کی ضرورت بھی نہیں

ہر شب

بس یہی ایک خواب دیکھتا ہوں

اور اب اسی کو دیکھتے ہوئے

اڑنے لگتے ہیں مگر کاٹ دئیے جاتے ہیں

اُڑنے لگتے ہیں مگر کاٹ دئیے جاتے ہیں

ہم پرندے ہیں، سو پر کاٹ دئیے جاتے ہیں

بات آتی ہے قبیلے کی انا پر جب بھی

رکھ کے دستار، یہ سر کاٹ دئیے جاتے ہیں

ان علاقوں میں دعائیں نہیں ہوتیں مقبول

جن علاقوں میں شجر کاٹ دئیے جاتے ہیں

کئی کوٹھے چڑھے گا وہ کئی زینوں سے اترے گا

 کئی کوٹھے چڑھے گا وہ کئی زینوں سے اترے گا

بدن کی آگ لے کر شب گئے پھر گھر کو لوٹے گا

گزرتی شب کے ہونٹوں پر کوئی بے ساختہ بوسہ

پھر اس کے بعد تو سورج بڑی تیزی سے چمکے گا

ہماری بستیوں پر دور تک امڈا ہوا بادل

ہوا کا رخ اگر بدلا تو صحراؤں پہ برسے گا

کہنے کی بات کب ہے یہ کرنے کی بات ہے

 کہنے کی بات کب ہے یہ کرنے کی بات ہے

دم عمر بھر کسی کا یہ بھرنے کی بات ہے

ہم نے کیا تھا عشق یہ جینے کے واسطے

کر کے خبر ہوئی کہ یہ مرنے کی بات ہے

ہے مختصر بہت یہ وفاؤں کی داستاں

پھولوں کے ڈالیوں سے بکھرنے کی بات ہے

ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے

 ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے

میں چل رہا تھا زمانے شمار کرتے ہوئے

یہی کُھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا

تِری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ہوئے

میں رشکِ ریشۂ گل تھا، بدل کے سنگ ہوا

بدن کو تیرے بدن کا حصار کرتے ہوئے

اگرچہ مہربانی تو کرے گا

 اگرچہ مہربانی تو کرے گا

وہ پِھر بھی بے زبانی تو کرے گا

عطا کر کے محبت کو معانی

جِگر کو پانی پانی تو کرے گا

بڑے دِن سے عدُو چُپ چُپ ہے یارو

کہ حملہ نا گہانی تو کرے گا

تابکاری کا نگاہوں میں اثر آیا ہے

 تابکاری کا نگاہوں میں اثر آیا ہے

تُو کسی اور کی بانہوں میں نظر آیا ہے

عشق ٹوکے کی طرح کاٹتا جاتا ہے مجھے

اس میں اُنگلی نہیں آئی، مِرا سر آیا ہے

کوئی سائنس، کوئی جادو ہو کہ محفوظ کروں

ایک موسم جو مِرے دل میں اُتر آیا ہے

میں جانتا ہوں ایک لڑکی کو

 یادداشت میں پڑی لڑکی


میں جانتا ہوں ایک لڑکی کو

جسے میں نے پہلی بار

جولائی کے ابتدائی ہفتے میں

سمندر کی لہروں سے کھیلتے دیکھا

وہ چُلو بھر پانی لیتی اور سمندر میں پھینک کر کہتی 

رات بکھرے ہوئے ستاروں کو

رات بکھرے ہوئے ستاروں کو

دن کی باتیں سنا رہا ہوں میں

میرے دل میں ہیں غم زمانے کے

ساری دنیا کا ماجرا ہوں میں

شعر اچھے برے ہوں میرے ہیں

ذہن سے اپنے سوچتا ہوں میں

ہر ذرۂ ریگ میں بگولے

امروز  و فردا


ہر ذرۂ ریگ میں بگولے

ہر بوند میں اوس کے بھنور ہیں

یہ حاصل فکر ہے سبھوں کا

وہ لوگ، جو ہم میں دیدہ ور ہیں

یہ ورثہ ہمیں ملا ہے ان سے

وہ لوگ، جو ہم میں دیدہ ور تھے

Thursday 23 June 2022

لو بھلا یہ کوئی کرایہ تھوڑی ہے

 تاوان


یہ کس نے کہہ دیا کہ

تم کو 24 گھنٹے خوبصورت ہی دِکھنا ہے

نیند سے جاگتے سمے بھی کلوپیٹرا لگنا ہے

لو بھلا یہ کوئی کرایہ تھوڑی ہے

جو تم کو عورت نام کے مکان میں رہنے کی مد میں 

نہ بتوں کے نہ اب خدا کے رہے

 نہ بتوں کے نہ اب خدا کے رہے

ہم کہیں کے نہ دل لگا کے رہے

فتنے کیا کیا نہ وہ اٹھا کے رہے

ہم بھی کوچے میں ان کے جا کے رہے

کر گئی وہ نگاہ اپنا کام

ہم بھروسے پہ اتقا کے رہے

آؤ مل بیٹھ کے آداب وفا طے کر لیں

 آؤ مل بیٹھ کے آدابِ وفا طے کر لیں

کس نے کس موڑ پہ ہونا ہے جدا، طے کر لیں

توڑ کر عہدِ وفا کون چلا جائے گا

کون لکھے گا، کسے جانِ وفا طے کر لیں

کب کہاں کون کسے کیوں کوئی کیسے کیونکر

کل کا ہر وہم ابھی بیٹھ ذرا طے کر لیں

اسی بازار تک بس روشنی ہے

 اسی بازار تک بس روشنی ہے

پھر اس کے بعد اک اندھی گلی ہے

ہر اک آواز میں ہے اجنبیت

ہر اک چہرے پہ اک بے چہرگی ہے

یہاں رسماً ہے سب کی خوش لباسی

نظر سے بے لباسی جھانکتی ہے

نجانے مجھ سے کیا پوچھا گیا تھا

 نجانے مجھ سے کیا پوچھا گیا تھا

مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا

محیط اک عمر پر ہے فاصلہ وہ

مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا

سنو سر پنچ کا یہ فیصلہ بھی

وہ مجرم ہے جسے لُوٹا گیا تھا

یادی از گزشتہ گزشتہ زمانے کی ایک یاد

 یادی از گزشتہ

(گزشتہ زمانے کی ایک یاد)


شیری ‌ست در کنارهٔ آن شطِّ پُرخروش

با نخل‌ ہای درہم و شب ہای پُر ز نور

اس پُرخروش نہر کے کنارے ایک شہر ہے

جس کے نخل درہم و آشفتہ اور جس کی شبیں پُرنور ہیں

میں استاد نہیں ہوں

 لستُ معلِّماً

میں استاد نہیں ہوں


لأعلمك كيف تُحبّينْ

میں معلّم نہیں ہوں کہ تمہیں عشق کرنا سکھاؤں

فالأسماك، لا تحتاج إلى معلِّمْ

مچھلیوں کو استاد کی ضرورت نہیں ہے

اہل طریقت بھی تیری ہی شراب سے سرشار ہیں

 نشاطِ معنویاں از شراب خانہ تست

فسونِ بابلیاں فصلے از افسانہ تست

اہلِ طریقت بھی تیری ہی شراب سے سرشار ہیں

اہلِ بابل کا سارا جادو بھی تیرے افسانے کا ایک باب ہے

بہ جام و آئینہ حرف جم و سکندر چیست

کہ ہر چہ رفت بہ ہر عہد در زمانہ تست

ہر رات میں تیرے آستانے کے پاس پڑا رہتا ہوں

 ہر شب منم فتادہ بہ گرد سرای تو

تار روز آہ و نالہ کنم از برای تو

ہر رات میں تیرے آستانے کے پاس پڑا رہتا ہوں

اور صبح تک تیرے غم میں آہ و زاری کرتا رہتا ہوں

روزے کہ ذرہ ذرہ شود استحوان من

باشد ہنوز در دل تنگم ہوای تو

میں نے کہا اے دل مکمل آئینہ تلاش کر

 گفتم اے  دل آئینہ کلّی بجو

رَو بدریا کار بر ناید زجو

میں  نے کہا اے دل مکمل آئینہ تلاش کر

دریا پر جا نہر سے کام نہ ہو گا

زیں طلب بندہ بکوئے تو رسید

درد مریم را بجز ما بن کشید

حریم شوق کے یہ بام و در بلا کے ہیں

حریمِ شوق کے یہ بام و در بلا کے ہیں

فریبِ دامِ فسونِ نظر بلا کے ہیں

لباسِ خاک مرا خاکداں کی ہے میراث

فلک سے روح کے رشتے مگر بلا کے ہیں

اسیر کرتی ہے یہ کس قدر سہولت سے

نگاہِ شوق کے سارے ہنر بلا کے ہیں

آنکھوں سے بچپنے کی شرارت چلی گئی

 آنکھوں سے بچپنے کی شرارت چلی گئی

میٹھی سی اس زبان کی لُکنت چلی گئی

دل میں رفاقتوں کے مطالب سما گئے

بے لوث جو کبھی تھی محبت، چلی گئی

دنیا کے کھیل نے ہمیں مصروف کر دیا

مکتب کے بعد کھیل کی فرصت چلی گئی

ہم بولیں گے ہم لکھیں گے تم قاتل ہو تم راہزن ہو

 ہم بولیں گے


اظہار پہ بھی پابندی ہے

گفتار پہ بھی پابندی ہے

غدار ہے وہ جو بات کرے

جو سوچے وہ بھی کافر ہے

اے عہدِ ستم کے اہلِ حکم

میں جس کو بدھو بنا رہی ہوں وہ آدمی تو شریف سا ہے

میں جس کو بدھو بنا رہی ہوں وہ آدمی تو شریف سا ہے

میں آگے آگے ہوں قافیے سی وہ پیچھے پیچھے ردیف سا ہے

بہت سے دکھ ہیں جو زندگی میں شدید مایوس کر رہے ہیں 

تِری محبت میں ہارنے کا ملال بالکل خفیف سا ہے 

کہیں پہ ہیں داغ اور کہیں پر ہیں چھید پڑتی ہوئی شعاع سے

تِری نظر کا اثر مِرے دل پہ ماہیت میں کثیف سا ہے

تیری میری ذات کا میل

طنزیہ و مزاحیہ کلام


تیری میری ذات کا میل

کِیکر پر انگُور کی بیل

جاہل بن بیٹھے سُلطان

عالم فاضل بیچیں تیل

دو ہی انت سیاست کے

کُرسی یا اڈیالہ جیل

Wednesday 22 June 2022

اگر اونچا کوئی بولے اسے الجھن سی ہوتی ہے

 اگر اونچا کوئی بولے، اسے الجھن سی ہوتی ہے

ہوا در بارہا کھولے، اسےالجھن سی ہوتی ہے

بہت اکتا سی جاتی ہے وہ گھر کے کام کرنے میں

وہ جب برتن کبھی دھو لے، اسے الجھن سی ہوتی ہے

وہ نامانوسِ الفت ہے کوئی اس کے اگر آگے

ذرا سا ہجر میں رو لے اسے الجھن سی ہوتی ہے

کھڑکی میں جگمگاتی تنہائی مجھے یاد دلاتی ہے

 کھڑکی میں جگمگاتی تنہائی


کبھی میں بھول جاتا ہوں

صبح گھر سے نکلتے وقت

جیسے اپنے کمرے کی بتی بجھانا

اور پھر

بھول جاتا ہوں خود کو

کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ کم ہے

 کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ کم ہے

تِری ہر ادا پہ میرا جو سرِ نیاز خم ہے

ہے جہاں میں کون ایسا کہ نہیں جسے کوئی غم

غمِ زندگی کا شکوہ تو سبھی کو بیش و کم ہے

کبھی لے کے آؤ فرصت تو اسے تمہیں سنائیں

کہ صحیفۂ مسرت یہ نہیں کتابِ غم ہے

کہاں جانا تھا مجھ کو کس جگہ خیمہ لگانا تھا

 کہاں جانا تھا مجھ کو

کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی

مجھے کِن ٹہنیوں سے دُھوپ چُننا تھی

کہاں خیمہ لگانا تھا

مِری مٹی راہِ سیارگاں کی ہم قدم نکلی

مِری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں

مری جانب منافق کے اگر دیکھے بڑھے بازو

 مِری جانب منافق کے اگر دیکھے بڑھے بازو

مِرے دشمن کے بچے ہی مِرے اکثر بنے بازو

فقط اتنی نشانی ہے بھروسے کے شہیدوں کی

کھلی آنکھیں، جمے آنسو، کٹے پاؤں، جلے بازو

مِرے دشمن تسلی رکھ، تِری مشقِ ستم کو پھر

میں آؤں گا ذرا سی لوں پھٹا سینہ، کٹے بازو

تمہارے نام کا صدقہ قبول کرتی ہوں

 تمہارے نام کا صدقہ


میں نے جب جب تمہارے نام کی بانسری ہونٹوں سے لگائی 

تو اس سے جو سُر بکھرا لوگوں نے شاعری سمجھا

حالانکہ تم جانتے ہو یہ تمہارا تذکرہ ہے

حالانکہ میں جانتی ہوں یہ تمہاری بات ہے

بس

عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا

 عجب یقین سا اس شخص کے گمان میں تھا

وہ بات کرتے ہوئے بھی نئی اڑان میں تھا

ہوا بھری ہوئی پھرتی تھی اب کے ساحل پر

کچھ ایسا حوصلہ کشتی کے بادبان میں تھا

ہمارے بھیگے ہوئے پر نہیں کھلے، ورنہ

ہمیں بلاتا ستارہ تو آسمان میں تھا

ایک معیار مستقل رکھنا

ایک معیار مستقل رکھنا

درد شایان شان دل رکھنا

ہنستی بستی زمین جانتی ہے

سرخ لاوا درونِ گل رکھنا

منجمد جھیل جیسا لگتا ہے

زخم اوپر سے مندمل رکھنا

دل میں اتر گیا تھا جو دل سے مرے اتر گیا

 دل میں اُتر گیا تھا جو دل سے مِرے اُتر گیا

چوٹی پہ ایک شخص تھا چوٹی سے گِر کے مر گیا

موجِ سرابِ غم کوئی ہم کو بہا کے لے گئی

خیر کہ یہ بھی سانحہ تاک میں تھا، گزر گیا

جانے تھا کب سے منتظر اس کی نظر پڑی نہیں

شاخ پہ ایک پھول تھا، شاخ پہ ہی بکھر گیا

پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا

 پیام آشتی اک ڈھونگ دوستی کا تھا

ملا وہ ہنس کے تقاضا یہ دشمنی کا تھا

کھڑا کنارے پہ میں اپنی تھاہ کیا پاتا

کہ یہ معاملہ عرفان و آگہی کا تھا

میں اس کے سامنے غیروں سے بات کرتا رہا

اگرچہ سودا مِرے سر میں بس اسی کا تھا

بے روح لڑکیوں کا ٹھکانہ بنا ہوا

 بے روح لڑکیوں کا ٹھکانہ بنا ہُوا

کمرہ ہے میرا آئینہ خانہ بنا ہوا

میں نے تو کوئی بات کسی سے نہیں کہی

سوچا ہے جو وہی ہے فسانہ بنا ہوا

ندیا میں کس نے رکھ دئیے جلتے ہوئے چراغ

موسم ہے چشمِ تر کا سہانا بنا ہوا

پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے

 پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے

سُندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے

چُھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن

آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے

چاند تِرے ماتھے سے اُگتا ہے چندا

رات مِری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے

ہم نے جس رات ترے ہجر کی دہلیز پر غم رکھا ہے

 ہم نے جس رات


ہم نے جس رات تِرے ہجر کی دہلیز پر غم رکھا ہے

چاند حیران ہوا ہے

کہ بھلا کون چمکتا ہے افق کے اس پار

ہنس دیا کوئی ستارہ، جو کبھی پلکوں پر

کہکشاں چونک اٹھی

بڑ تو ہانکیں گے دیوانے ایسا کرتے ویسا کرتے

 بڑ تو ہانکیں گے دیوانے، ایسا کرتے، ویسا کرتے

حسن کی بھیک پہ پلنے والے عشق نہ کرتے تو کیا کرتے

میرا زور بھی میرے رب پر تیرا زور بھی میرے رب پر

میری مسجد ڈھانے والے اپنا قبلہ سیدھا کرتے

ہم نے آپ کو کب روکا تھا آپ نے روکا ظلم کمایا

آپ بھی اللہ اللہ کرتے، ہم بھی لیلیٰ لیلیٰ کرتے

Tuesday 21 June 2022

تو آج ظرف تمہارا بھی آزماتے ہیں

 تو آج ظرف تمہارا بھی آزماتے ہیں

اگر ہو اِذن، تمہیں آئینہ دکھاتے ہیں

کہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضر ہوں

کہو تو سر پہ کوئی آسماں اٹھاتے ہیں

ہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیسا

تو چیخ چیخ کے کیا ان کو ہم جگاتے ہیں

ہمیں محبت کی نظموں کی شدید ضرورت ہے

 ہمیں محبت کی نظموں کی شدید ضرورت ہے

اندر کے خالی پن کو بھرنے کے لیے 

حرف خانقاہ کے دالان میں ایستادہ 

گھنے برگد کے تنے پر لپٹے 

رنگین دھاگوں سے ناتا برقرار رہے

ہر رنگین دھاگہ ایک منت ہے

نہ باتیں کیں نہ تسکیں دی نہ پہلو میں ذرا ٹھہرے

 نہ باتیں کیں نہ تسکیں دی نہ پہلو میں ذرا ٹھہرے

جو تم آئے تو کیا آئے جو تم ٹھہرے تو کیا ٹھہرے

کس کا رنگ الفت کیا جمے واں یہ بھی مشکل ہے

کہ ان کے دست و پا میں ایک دم رنگِ حنا ٹھہرے

دلِ مضطر بشکلِ برق دم لینے نہیں دیتا

مجھے آرام آ جائے جو پہلو میں ذرا ٹھہرے

سچ سے روگرداں نہیں ہوتا

 اعتراف


حقیقی دشمنی کو دوستی کے مکر پر اور پیرہن پر

خواہ اس میں فائدہ ہی کیوں نہ ہو

ترجیح دیتا ہوں

کہ میری تربیت میں

یا مِرے ماحول میں یا پھر جبلت میں

ہوا کی زد پہ تو کوئی چراغ رہنے دے

 ہوا کی زد پہ تو کوئی چراغ رہنے دے

یہ حوصلوں کی لڑائی ہے اس کو چلنے دے

نہ جانے کون بھٹکتا ہوا چلا آئے؟

کواڑ بند کیا ہے، دِیا تو جلنے دے

ابھی تو اور اٹھیں گے نقاب چہروں سے

یہ اقتدار کا سورج تو اور ڈھلنے دے

دن رات بار بار بنایا گیا مجھے

 دن رات بار بار بنایا گیا مجھے

تب جا کے شاہکار بنایا گیا مجھے

ہنستا تھا زور زور سے میں بات بات پر

دُکھ دے کے بُردبار بنایا گیا مجھے

وہ تُو ہے مجھ میں، جس کی حفاظت کے واسطے

باہر سے خاردار بنایا گیا مجھے

محبت بس محبت ہے

 چلو آؤ محبت سے بھری اک نظم لکھتے ہیں

سمو دیتے ہیں اس میں سانس کی گرمی

سجا کے دل کے جذبوں سے

اسے شاہکار کرتے ہیں

لبوں سے گنگناتے ہیں سبھی وہ پیار کے نغمے

جو سوچوں میں اترتے ہیں

خود کو تری نظروں میں گرانا تو نہیں ہے

خود کو تری نظروں میں گرانا تو نہیں ہے

رکھنا ہے تجھے یاد، بُھلانا تو نہیں ہے

کھینچا ہے محبت سے تِرے شہر کا نقشہ

حالانکہ یہ چاہت کا زمانہ تو نہیں ہے

پلکوں پہ بٹھایا ہے جسے پیار دیا ہے

اس نے مجھے پہلو میں بٹھانا تو نہیں ہے

درج زیریں سطور میں صدقے

درج زیریں سطور میں صدقے

جی جی پڑھیۓ، ضرور میں صدقے

ہم نے پوچھا کہ؛ عشق کی تعریف؟

بولے؛ "دل کا فتور" میں صدقے

اپنی مرضی کے ہیں غلام سبھی

اور اس پہ غرور؟ میں صدقے

Monday 20 June 2022

سنو پھر دیر مت کرنا

 سنو پھر دیر مت کرنا


ہواؤں کے لبوں پر سسکیاں اچھی نہیں لگتیں

مگر پھر بھی

 کبھی یونہی سسک اٹھیں

تو پل بھر میں سمجھ جانا

تمہاری کھڑکیوں سے جھانکتی بیلوں سے 

ہوا ہے فیصلہ بستی جلائی جائے گی

 ہُوا ہے فیصلہ، بستی جلائی جائے گی

پھر اس کے بعد شبِ غم منائی جائے گی

امیرِ شہر کو رونا ہے جس قیامت پر

کسی غریب کے گھر میں اُٹھائی جائے گی

مجھے صفائی کا موقع بھلے ملے نہ ملے

سُنا ہے عام عدالت لگائی جائے گی

ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں

 ہوس کی آنکھ میں جگنو مچلنے لگتے ہیں

نظر جھکا کے وہ جب ہاتھ ملنے لگتے ہیں

ذرا سی دیر میں شکلیں بدلنے لگتے ہیں

ہوا کے لمس سے بادل پگھلنے لگتے ہیں

ہے لازمی کوئی تحریک زندگی کے لیے

پڑے پڑے میاں! شہتیر گلنے لگتے ہیں

کھود کر صحن دل عشق دبایا جا سکتا تھا

کھود کر صحنِ دل، عشق دبایا جا سکتا تھا

اذیت تھی مِری جاں مگر مُسکرایا جا سکتا تھا

اسے میں روک لیتا تو شاید وہ رُک جاتا

اس طرح سے لیکن کتنا نبھایا جا سکتا تھا

دعائیں بدل سکتی ہیں مقدر کی تحریریں

گویا نصیبوں کا لکھا مٹایا جا سکتا تھا

یوں بھی کچھ وقت گزارا کسی رسوائی میں گم

 یوں بھی کچھ وقت گزارا کسی رُسوائی میں گُم

اچھی کٹ جائے گی پھر یاد کی شہنائی میں گم

تیرے ہنسنے سے اُبھر آیا ہوں ویسے کہیں تھا

پورے منظر سے الگ بات کی گہرائی میں گم

ہم ہیں اس عہدِ جواں مرگ میں بوڑھے کاذب

ہم نے رہنا ہے نئی بات کی پسپائی میں گم

پھر اسے بے حس کہا گیا

پھر اسے بے حس کہا گیا


 وہ خاموش تھی کہ بھرم نہ ٹوٹے کسی کا

وہ خاموش تھی کہ اسے دوسروں کی خوشی عزیز تھی

وہ خاموش تھی کہ تربیت کا بوجھ تھا کاندھوں پر

وہ خاموش تھی کہ حد سے تجاوز پہ ڈرتی تھی

وہ خاموش تھی کہ راستے نازک بہت تھے

مجھ کو تا عمر تڑپنے کی سزا ہی دینا

مجھ کو تا عمر تڑپنے کی سزا ہی دینا

تجھ کو منظور اگر ہو تو بُھلا ہی دینا

اے غمِ ہجر وہ تہمت جو لگائے مجھ پر

میری بے لوث محبت کی گواہی دینا

یہ الگ بات کہ ہو جاؤں محبت میں تباہ

تو نہ مجھ کو کبھی احساس تباہی دینا

کسی کی عینک کو مسئلہ ہے

 کسی کی عینک کو مسئلہ ہے


تمہارے جانے سے

اور کچھ بھی نہیں ہوا ہے 

بس وہ راستے کہ جن کی فٹ پاتھ پہ چلتے چلتے 

میں تمہارا ہاتھ پکڑنے کی جتن کرتا اور ہار جاتا 

نڈھال سے ہیں

فضول وقت سمجھ کے گزار کر مجھ کو

 فضول وقت سمجھ کے گزار کر مجھ کو

وہ جا رہا ہے کہیں دور مار کر مجھ کو

تلاش مجھ کو ہے اس چاہتوں کی دیوی کی

جو چھپ گئی ہے ہمیشہ پکار کر مجھ کو

تمام عمر تِرے انتظار میں ہمدم

خزاں رسیدہ رہا ہوں، بہار کر مجھ کو

تم جس دن چھوڑ کر گئی تھی

 تم جس دن چھوڑ کر گئی تھی 

اس دن کے بعد

میں کسی بھی حادثے پر حیران نہیں ہوتا

مجھے زہر اور تمہارا ذائقہ ایک جیسا لگتا ہے

پھر بھی میں گزشتہ گیارہ سال سے سانس لے رہا ہوں

اور لوگوں کو دانت دکھا کر 

Sunday 19 June 2022

حبس کی رت جو ہر منظر پہ طاری ہے

 حبس کی رت جو ہر منظر پہ طاری ہے

موسم گل بھی آنے سے انکاری ہے

اس سے اچھے پتھر ہوں گے دنیا میں

وہ انسان ہے اور احساس سے عاری ہے

دم گھٹتا ہے جسم کی اس زندانی میں

بس اک سانس کی رو سینے میں جاری ہے

کہیں نہ دھوپ نہ بارش ہے سائبان اداس

 کہیں نہ دھوپ، نہ بارش ہے سائبان اداس

نظر جھکائے ہوئے لوگ، آسمان اداس

شکار کر کے پرندہ، ہُوا شکاری خوش

لہو کے داغ اٹھائے ہوئے چٹان اداس

گھروں میں بھوک سے بچے بڑے فسردہ سب

نگر میں کرفیو نافذ، ہر اک دُکان اداس

نہ کوئی آنکھ ہو میلی نہ دل ہی کالا رہے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


نہ کوئی آنکھ ہو میلی، نہ دل ہی کالا رہے

وہ نور دے کہ نہ کوئی بھٹکنے والا رہے 

شعور و فکر کے ایسے چراغ دے ہم کو 

جہالتوں کا کہیں ذکر، نہ حوالہ رہے

نہ رہگزر نہ کوئی رہنما ہو تیرے سوا

کوئی کلیسا و مندر ہو، نہ شوالا رہے

نیند میرے اعصاب پہ سوار ہو چکی ہے

 گڈ نائٹ


نیند میرے اعصاب پہ سوار ہو چکی ہے

امید نے دامن جھٹک کر

دہلیز پر اونگھتی ہوئی آنکھوں کے ہاتھ زخمی کر دئیے ہیں

انتظار

اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے

اب کے تصویر بناتے ہوئے یہ دھیان رہے

 اب کے تصویر بناتے ہوئے یہ دھیان رہے

کسی صورت کے نکل آنے کا امکان رہے

کل اثاثے کی میاں ایک ہی گٹھڑی نہ بنا

تا کہ ہر ٹوٹی ہوئی چیز کی پہچان رہے

تجھ سے درکار محبت ہے محبت کے عوض

میں نہیں چاہتا تجھ پر کوئی احسان رہے

جہاں بھی ظلم و تکبر مثال ہوتا ہے

 جہاں بھی ظلم و تکبر مثال ہوتا ہے

عروجِ آدمِ خاکی زوال ہوتا ہے

کسی کا دل جو دُکھائے کسی کو تہمت دے

بدیر جلد بُرا اس کا حال ہوتا ہے

ہو گھاؤ خنجر و شمشیر کا تو بھر جائے

زباں کا زخم کہیں اندمال ہوتا ہے

زندہ ضمیروں کا سودا نہیں ہوتا

 زندہ ضمیروں کا، سودا نہیں ہوتا

جو بِک رہا ہو وہ، زندہ نہیں ہوتا

جرأت نمو کی ہی، پرواں چڑھاتی ہے

جو بیج بزدل ہو، پودا نہیں ہوتا

کردار فیصد میں، ناپا نہیں جاتا

کردار یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

آنکھ میں عکس پرونا تو نہیں کافی ناں

 آنکھ میں عکس پرونا تو نہیں کافی ناں

محض بینائی کا ہونا تو نہیں کافی ناں

تجھ کو حاصل نہیں کرنا ہے تجھے پانا ہے

روتے بچے کو کھلونا تو نہیں کافی ناں

اور اب کتنا سمٹ کر رہوں پہلو میں تِرے

گھر میں رہتے ہوئے کونا تو نہیں کافی ناں

لعل و گہر کہاں ہیں دفینوں سے پوچھ لو

 لعل و گہر کہاں ہیں دفینوں سے پوچھ لو

سینوں میں کافی راز ہیں، سینوں سے پوچھ لو

جھیلا ہے میں نے تین سو پینسٹھ دکھوں کا سال

چاہو تو پچھلے بارہ مہینوں سے پوچھ لو

قبروں کے دکھ سے کم نہیں کچے گھروں کے دکھ

تم زندہ لاشوں یعنی مکینوں سے پوچھ لو

کچھ یقیں بھی آ چلا وہم و گماں کے ساتھ ساتھ

کچھ یقیں بھی آ چلا وہم و گماں کے ساتھ ساتھ

چل پڑی جوئے رواں، ریگِ رواں کے ساتھ ساتھ

نام لیتے ہی تِرا، سینے میں سیلاب آ گیا

تو تہہِ دل میں بھی ہے نوکِ زباں کے ساتھ ساتھ

ڈوبنے دیں گے نہ اب اس دل نشیں مہتاب کو

ہم بھی گردش میں رہیں گے آسماں کے ساتھ ساتھ

Saturday 18 June 2022

میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں دھیمی دھیمی پھوار گرتی ہے

 میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں


میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں

دھیمی دھیمی پھوار گرتی ہے

مجھ میں دریا ہیں موجزن ہر سو

لہریں اٹھتی ہیں ڈوب جاتی ہیں

میرے اندر ہوائیں چلتی ہیں

ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے

 ظلم ہے، قہر ہے، قیامت ہے

عشق کی آج پھر، امامت ہے

کرب کا لمحہ ہے بہت بھاری

لوٹ کر آؤ تو، عنایت ہے

زندگی آج ہے بنی مشکل

کھوٹ ہے، زہر ہے، ملاوٹ ہے

میں اپنے آپ کو تمہارے پاس بھول آیا ہوں

 تمہیں 

غصہ آتا ہے 

میری بھولنے کی عادت پر 

میں تمہارے پاس 

نظموں کی کتاب بھول جاتا ہوں 

تم 

غم نہیں غیر کی ریائی کا

غم نہیں غیر کی ریائی کا

دکھ ہے اپنوں کی بے وفائی کا

عرشِ دل میں بسا لیا ان کو

ڈر نہیں اب مجھے جدائی کا

دل لگانے سے قبل سوچنا تھا

فائدہ کیا ہے اب دُہائی کا

قہقہوں بھرا رکشہ مرسڈیز ہے خاموش

 ڈیڑھ تال


قہقہوں بھرا رکشہ

مرسیڈیز ہے خاموش

ایک رنج بنگلے کا

جھونپڑی سے نادم ہے

ایک نیند حوا کی

ادھوری کہانی جیسے تمہاری اور میری کہانی

 ادھوری کہانی


تم ضرورتوں کی طرح کب تھے

کہ تمہیں پانے کی ہر ممکن سعی کرتی

تم تو خواہشوں کی طرح تھے

ان خواہشوں کی طرح جو اکثر ادھوری رہ جاتی ہیں

وہی جن کے بطن سے ادھوری کہانیاں جنم لیتی ہیں

یہ جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے

 یہ جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے

میری یکطرفہ محبت بھی تو ہو سکتی ہے

ٹال دیتے ہو یوں ہی ہنس کے مِری باتوں کو

میری باتوں میں حقیقت بھی تو ہو سکتی ہے

بس یہی سوچ کے مندر میں نہیں جاتا میں

کوئی مُورت تِری صُورت بھی تو ہو سکتی ہے

بھلا وہ ایک ناپاک عورت کے ساتھ کیوں رہتا

 ناپاک عورت


وہ کتنی عورتوں کے ساتھ سو چکا تھا 

اسے یاد تک نہیں تھا

جب بھی کسی کوٹھے پہ نیا مال آتا 

تو پہلا حق اس کا ہوتا

اس کے فون کی گیلری میں 

میں اپنے خواب خزینوں سے خوب واقف ہوں

 میں اپنے خواب خزینوں سے خوب واقف ہوں

تمہارے ساتھ کے لمحوں سے خوب واقف ہوں

کہاں پہ بھٹکے ہوئے دل کو روک لینا ہے

سرابِ عشق کے رستوں سے خوب واقف ہوں

جہاں پہ درج محبت کی داستانیں ہیں

 غریب لوگوں کی آنکھوں سے خوب واقف ہوں

جمال زادی اسے خبر ہی نہیں کہ کون اس کو چاہتا ہے

 جمال زادی


وہ جس کو دیکھا تو میری بنجر نگاہ میں 

ایک خواب نے ایسے آنکھ کھولی

کہ جیسے صدیوں سے 

زرد جنگل میں کوئی شے سبز ہو گئی ہو

عجیب لڑکی ہے جس کو 

چٹختے ٹوٹتے جھڑتے بدن کی

چٹختے، ٹوٹتے، جھڑتے بدن کی

لگے نہ بددعا اجڑے بدن کی

کہانی کار خود جلنے لگے گا

کبھی رُوداد جو لکھے بدن کی

سُنہری انگلیاں دہکی رہیں گی

تمہیں ہے بددعا جلتے بدن کی

مرا دمساز عیاری نہیں کرتا

 مرا دَمساز عیاری نہیں کرتا

محبت کی اداکاری نہیں کرتا 

ہر اک پر کھول دیتے ہو درونِ دل

یہاں ہر شخص غمخواری نہیں کرتا

بچھڑنے پر تِرے ماتم کناں ہیں ہم

مگر تُو ہے عزاداری نہیں کرتا

خدا کا سوال؛ بتا کیا کیا تو نے میرے لیے

خدا کا سوال 

 فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ اس آیہ کے تناظر میں کہی گئی ایک نظم


میرے رب کی مجھ پر عنایت ہوئی 

کہوں بھی تو کیسے عبادت ہوئی 

حقیقت ہوئی جیسے مجھ پر عیاں 

قلم بن گیا ہے خدا کی زبان 

میرے رب کی مجھ پر عنایت ہوئی 

میرے شہکار کو بے کار کا غم کھاتا ہے

 میرے شہکار کو بے کار کا غم کھاتا ہے

اب میسر کو بھی درکار کا غم کھاتا ہے

نیند تنہا ہی کہیں بیٹھ کے رو لیتی ہے

اس کو اب دیدۂ بیدار کا غم کھاتا ہے

ایسا دیکھا ہے کہ دیوار پہ دیوار گِری

جیسے دیوار کو دیوار کا غم کھاتا ہے

ان ہاتھوں سے تیر میرے سینے میں آ لگے

 ان ہاتھوں سے تیر میرے سینے میں آ لگے

اس ذائقے سے عمدہ مجھے اور کیا لگے

میں اس پہلو میں لیٹوں تقاضا چھوڑ کر

اور اسی وقت مر جاؤں اک لمحہ لگے

میں تو ویسے ہی شہر چھوڑنے والا ہوں

باقی جو تم کہو جیسے اچھا لگے

Friday 17 June 2022

جل گئے سب گلاب چہرے نظر سے اترا جمال یاراں

 عالم حبس


جل گئے سب گلاب چہرے

نظر سے اترا جمالِ یاراں

بکھر گیا ہے خیالِ جاناں

حسرتوں کے مہیب سائے

بِنا بتائے

ضبط کی آہنی دیوار کو ڈھایا جائے

 ضبط کی آہنی دیوار کو ڈھایا جائے

دوستو! اب کوئی طوفان اُٹھایا جائے

ختم ہو جبر کی فرسودہ روی کا قصہ

اب ہواؤں کو چراغوں سے جلایا جائے

گرچہ اک ریت کا گرداب ہے چاروں جانب

سبز باغ اب نہ وفاؤں کا دکھایا جائے

خواب میں ہاتھ چھڑاتی ہوئی تقدیر کا دکھ

 خواب میں ہاتھ چُھڑاتی ہوئی تقدیر کا دُکھ

آنکھ سے لِپٹا ہے اب تک اسی تعبیر کا دکھ

کوششیں کر کے بہرحال مصور ہارا

شوخ رنگوں میں چھپا ہی نہیں تصویر کا دکھ

اس کی آنکھوں میں نمی ختم نہیں ہو سکتی

پڑھ لیا جس نے بھی ہنستی ہوئی تحریر کا دکھ

کہانی ختم ہوتے ہی کہانی ختم بس سمجھو

رقص

کہانی ختم ہوتی ہے

کہانی ختم ہوتے ہی کہانی ختم بس سمجھو

زمیں اک فرشِ مقتل ہے

جہاں زادوں کو ہر صورت 

یہاں پر رقص کرنا ہے

ہتھیلیاں تو ملی ہیں دعا علیحدہ ہے

 ہتھیلیاں تو ملی ہیں دعا علیحدہ ہے

وہ کس مقام پہ آ کر ہوا علیحدہ ہے

ہیں سرد ہاتھ، جبیں پر مگر پسینہ ہے

مقام ایک ہے، آب و ہوا علیحدہ ہے

گو ہمسفر تھے مگر جب کسی نے پوچھا تو.

وہ مجھ کو دیکھ کے کہتا رہا،علیحدہ ہے 

Thursday 16 June 2022

یہ جو برس رہی ہے یہ بارش کب ہے

 یہ بارش کب ہے

یہ جو برس رہی ہے

یہ بارش کب ہے

یہ تو تمہاری آواز کی لرزتی لو سے

زرا سی روشنی لے کر

 ستارے ہیں

جاری تھی کب سے کن کی صدا روک دی گئی

 جاری تھی کب سے کُن کی صدا، روک دی گئی

لیکھک کا دل بھرا تو کتھا روک دی گئی

اس نے تو صرف مجھ کو اشارہ کیا کہ رک

ہر چیز اپنی اپنی جگہ روک دی گئی

ہر شب ہوا سے بجتی تھیں سب بند کھڑکیاں

اک شب وہ کھول دیں تو ہوا روک دی گئی

آج ہم روٹھیں تو کیا آپ منائیں گے ہمیں

 آج ہم

آج ہم روٹھیں

تو کیا آپ منائیں گے ہمیں

آج ہم روئیں

تو کیا آپ ہنسائیں گے ہمیں

اب جو ہم پھر سے اجڑ جائیں

سلیقے سے اگر توڑیں تو کانٹے ٹوٹ جاتے ہے

 سلیقے سے اگر توڑیں تو کانٹے ٹوٹ جاتے ہے

مگر افسوس یہ ہے پھول پہلے ٹوٹ جاتے ہے

محبت بوجھ بن کر ہی بھلے رہتی ہو کاندھوں پر

مگر یہ بوجھ ہٹتا ہے تو کاندھے ٹوٹ جاتے ہیں

بچھڑ کر آپ سے یہ تجربہ ہو ہی گیا آخر

میں اکثر سوچتا تھا لوگ کیسے ٹوٹ جاتے ہے

تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں

 تو جو کب سے دل میں ہے جا گزیں میری دھڑکنوں کا حساب کر

تو جو کب سے بیٹھا ہے آنکھ میں کوئی روشنی میرا خواب کر

میں جو سر بہ سر کسی گم شدہ سی صدا کا عذاب ہوں

میری تار زخم تلاش لے، مجھے شام غم کا رباب کر

بڑی بے امان ہے زندگی، اسے بن کے کوئی پناہ مل

کوئی چاند رکھ میری شام پر، میری شب کو مہکا گلاب کر

نشان دیکھ مرے جسم کے بتا مجھ کو

 نشان دیکھ مِرے جسم کے، بتا مجھ کو

کہاں کہاں سے تِرے ہجر نے چھوا مجھ کو

میں ایسے چاک سے اور خاک سے نہیں ہوں خوش

نئے سرے سے مِرے کوزہ گر بنا مجھ کو

میں اپنے ساتھ ہوں آسودہ رہنے والا شخص

تجھے میں کہتا نہیں تھا کہ چھوڑ جا مجھ کو

آنکھ سمندر بِہتے بِہتے

 آنکھ سمندر

بِہتے بِہتے

حال دلوں کا کہتے کہتے

جس پل تھم کر پل بھر سوچے

اچھا تھا خاموش ہی رہتے

نیر کی دھارا جب تھم جائے

سبب تو کچھ بھی نہیں اور اداس رہتا ہے

 سبب تو کچھ بھی نہیں اور اداس رہتا ہے

یہ کیسا درد ہے جو دل کے پاس رہتا ہے

مجھے پتا نہیں اس کا مگر یہ سنتا ہوں

وہ ان دنوں مِرے گھر کے ہی پاس رہتا ہے

مِری کتاب کے اوراق سب تمہارے ہیں

جہاں سے دیکھو تِرا اقتباس رہتا ہے

ہجر کا حکم سنا کون و مکاں چونک پڑے

 ہجر کا حکم سنا، کون و مکاں چونک پڑے

میں یہاں چونک پڑا، آپ وہاں چونک پڑے

میں تو جس نام سے واقف تھا، وہی نام لیا

نام سنتے ہی فلاں ابنِ فلاں چونک پڑے

وہ کسی اور ملاقات میں گم تھے شاید

پہلے اقرار کیا، بعد ازاں چونک پڑے

Wednesday 15 June 2022

گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھو کہ اندر کیا ہے

 گہرائیوں کا خوف


بہت آساں نظر آیا

ہمیں اس روز اپنا پانیوں پر تیرتے رہنا

کسی نے جب کہا؛ گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھو

کہ اندر کیا ہے

تو ہم ڈر کر سمندر کے کنارے کی طرف لپکے

زندگی لاش بنی پھرتی ہے

 زندگی لاش بنی پھرتی ہے

آرزو بین کیے جاتی ہے

ابر ایسے ہیں نگاہوں میں، برستے ہیں تو تھمتے ہی نہیں

حسرتوں کا کوئی ماتم ہے کہ ٹلتا ہی نہیں

یہ اُداسی ہے جو آتی ہے تو جاتی ہی نہیں

کون سی رُت ہے کوئی نام نہیں ہے اس کا

ہوا کے پر کترنا اب ضروری ہو گیا ہے

 ہوا کے پر کترنا اب ضروری ہو گیا ہے

مِرا پرواز بھرنا اب ضروری ہو گیا ہے

مِرے اندر کئی احساس پتھر ہو رہے ہیں

یہ شیرازہ بکھرنا اب ضروری ہو گیا ہے

میں اکثر زندگی کے ان مراحل سے بھی گزرا

جہاں لگتا تھا مرنا اب ضروری ہو گیا ہے

میں تیری مرضی میں شامل اپنی رضا کروں گا

میں تیری مرضی میں شامل اپنی رضا کروں گا

تو اپنے خوابوں سے عشق کر میں دعا کروں گا

جو پہلا اندھا ملے گا اس کا بھلا کروں گا

نہ جن میں تو ہو میں ایسی آنکھوں کا کیا کروں گا

اگر وہ اک شخص میرے حصے میں آ گیا تو

میں شہر بھر کی قضا نمازیں ادا کروں گا

مائے سنو ماں جی نہیں لگتا قسم سے

 مائے


سنو ماں

جی نہیں لگتا

قسم سے

اب تمہارے بِن یہاں پر جی نہیں لگتا

تم اچھی تھیں بہت مائے

بتایا تک نہیں مجھ کو

دو دلوں کی قربت میں تیسرا گر آ جائے

تکون


دو دلوں کی قربت میں تیسرا گر آ جائے 

ساتھ رہنے والے بھی ساتھی پھر نہیں رہتے

تیسرے کو جانو تم، شیطان اس کو کہتے ہیں

راہ کا گزیدہ ہے،۔ راہ سے ہٹاتا ہے

منزلوں کے رستے میں روڑے اٹکاتا ہے

چاہت میں اک تازہ الجھن رہنے دے

 چاہت میں اک تازہ الجھن رہنے دے

سناٹے میں ایک تو دھڑکن رہنے دے

چہرے پر تصویر نہ کر اندیشوں کو

اپنے اندر کچھ تو بچپن رہنے دے

جن میں چاند چکور تھے تیری چاہت کے

ان آنکھوں میں دیوانہ پن رہنے دے

نہ امن اور نہ مسائل کے حل میں ہوتا ہے

نہ امن اور نہ مسائل کے حل میں ہوتا ہے

ہمارا فائدہ جنگ و جدل میں ہوتا ہے

کسی بھی کام میں مجھ سے پہل نہیں ہوتی

مجھے تو پیار بھی رد عمل میں ہوتا ہے

ہزاروں سال بھی ٹھہرو تو کچھ نہیں ہو گا

جو کام ہونا ہو وہ ایک پل میں ہوتا ہے

کمبخت دل کو کیسی طبیعت عطا ہوئی

 کمبخت دل کو کیسی طبیعت عطا ہوئی

جب جب بھی دکھ اٹھائے، مسرت عطا ہوئی

پھر قحط سے مرے ہوئے دفنا دئیے گئے

اور چیونٹیوں کے رزق میں برکت عطا ہوئی

اس حکم میں تھی ایسی رعونت کہ پہلی بار

ہم بزدلوں کو کفر کی ہمت عطا ہوئی

مرد روتے نہیں

مرد روتے نہیں

 

موسموں کی کشاکش میں بھیگی ہوئی

ساعتوں کو دلاسے دئیے جاتے ہیں

اپنے کندھے پہ رکھ کر عَلم خواب کا

ٹُوٹی پُھوٹی سڑک پر چلے جانا ہے

اور ہر زخم سہہ کر کے ہنسنا ہے بس

سچ سمجھنا ہے اُن سارے افسانوں کو

خوگر غم ہیں کرم کی التجا کرتے نہیں

خُوگرِ غم ہیں کرم کی اِلتجا کرتے نہیں

ہم خُوشی لے کر طبیعت بے مزا کرتے نہیں

آرزُو ہم اپنے سینے سے جُدا کرتے نہیں

مُدعا رکھتے ہیں، عرضِ مُدعا کرتے نہیں

تیری مرضی ہے جسے چاہے نواز اے چشمِ یار

ہم تو ان باتوں میں اپنا جی بُرا کرتے نہیں

کبھی کپڑے بدلتا ہے کبھی لہجہ بدلتا ہے

کبھی کپڑے بدلتا ہے، کبھی لہجہ بدلتا ہے

مگر ان کوششوں سے کیا کہیں شجرہ بدلتا ہے

تمہارے بعد اب جس کا بھی جی چاہے مجھے رکھ لے

جنازہ اپنی مرضی سے کہاں کاندھا بدلتا ہے

رہائی مل تو جاتی ہے پرندے کو مگر اتنی

صفائی کی غرض سے جب کبھی پنجرہ بدلتا ہے

موت بہادری نہیں دیکھتی

موت بہادری نہیں دیکھتی


گولی بہادر کے سینے سے

گزرتی ہے

اور بے خوف دل

دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے

کسی مارکیٹ میں یا چوراہے پر

Tuesday 14 June 2022

اے سوئے ہوئے میرے دوست اٹھ

 ای خفتہ رسید یار برخیز

از خود بنشاں غبار برخیز

اے سوئے ہوئے دوست اٹھ جاؤ

خاک سے خود ہی اٹھ جاؤ

ہین بر سر مہر و لطف آمد

اے عاشق زار یار بر خیز

تیرا غم یوں مرے سینے کے اندر سانس لیتا ہے

 تیرا غم یوں مِرے سینے کے اندر سانس لیتا ہے

کہ جیسے سرد راتوں میں دسمبر سانس لیتا ہے

تجھے آواز بھی دیتا تو کیسے، خود مِرے اندر

کوئی مجذوب بیٹھا ہے،۔ قلندر سانس لیتا ہے

میں جب کاغذ پہ لفظوں سے تِری صورت بناتا ہوں

تو آنکھیں بولنے لگتی ہیں،۔ منظر سانس لیتا ہے

دل پہ گزری جو زباں تک نہیں لانے والے

 دل پہ گزری جو زباں تک نہیں لانے والے

ہم ہیں زخموں کے بہت ناز اٹھانے والے

کیسی بستی ہے خدا جانے یہ اسرار ہے کیا

لوٹ کر پھر نہیں آتے کبھی جانے والے

تُو بہت شور مچاتا ہے مِرے پہلو میں

ہم تِری بات میں اے دل! نہیں آنے والے

لکھیں گے نہ اس ہار کے اسباب کہاں تک

 لکھیں گے نہ اس ہار کے اسباب کہاں تک

رکھیں گے مِرا دل مِرے احباب کہاں تک

گرتی ہوئی دیوار کے سائے میں پڑا ہوں

شل ہوں گے نہ آخر مِرے اعصاب کہاں تک

حسرت ہے کہ تعبیر کے ساحل پہ بھی اتروں

دیکھوں گا یونہی روز نئے خواب کہاں تک

سنو یہ مرلی کیسی کرتی ہے شکایت

 مرلی کا گیت


سنو یہ مرلی کیسی کرتی ہے شکایت

ہیں دور جو پی سے، انکی کرتی ہے حکایت 

کاٹ کے لائے مجھے، جس روز ون سے

سن روئے مرد و زن، میرے سر کے غم سے

کھوجتا ہوں ایک سینہ فرقت سے زرد زرد

کر دوں بیان اس پر اپنی پیاس کا درد

Monday 13 June 2022

آنکھ مچولی

 آنکھ مچولی


لوگ اکثر

ہمارے پیروں تلے سے زمین

آنکھوں کے سامنے سے راستے

ذہن سے منزل کے نشان

اور دل سے جیت کا یقین چھین کر

ہماری پیشانی کو ہار کا ٹیگ

عذاب جتنے ہیں سارے ہماری خاطر ہیں

 عذاب جتنے ہیں سارے ہماری خاطر ہیں

تمہارے پاس تو مال و متاع وافر ہیں

وہ جن کے پاؤں میں چل چل کے پڑ گئے چھالے

وہ راہِ عشق نہیں بھوک کے مسافر ہیں

یہ شہ کے ساتھ مصاحب بنے جو پھرتے ہیں

یہ کہہ رہے ہیں کہ سب لوگ تیری خاطر ہیں

دماغوں سے ابھی تک سوچ تاتاری نہیں نکلی

 دماغوں سے ابھی تک سوچ تاتاری نہیں نکلی 

مہذب ہو کے بھی اندر کی خونخواری نہیں نکلی

بدل ڈالے سبھی قانون اک اک کر کے جنگل کے 

شفا تو مل گئی پر جڑ سے بیاری نہیں نکلی 

شہنشاہییں تو ہو گئیں دربار سے باہر 

مگر درباریوں کی خوئے درباری نہیں نکلی

مشاہدہ رات کے پچھلے پہر بندے کا ذاتی ہے

 مشاہدہ رات کے پچھلے پہر بندے کا ذاتی ہے

گھڑی دیوار پر لٹکی ہوئی کچھ گنگناتی ہے

تمہارے سرخ ہونٹوں پر تبسم پُر تکلف ہے

ہمارے درمیاں قُربت کا لمحہ حادثاتی ہے

میں کتنی دیر تک ماتھا رگڑ سکتا ہوں اینٹوں پر

مجھے کمرے کی ہر دیوار شب بھر آزماتی ہے

اس طرح دل کا زخم کھلا بارشوں کے بعد

 اس طرح دل کا زخم کھلا بارشوں کے بعد

کھلتی ہے جیسے قوس قزح بارشوں کے بعد

دیتی ہے جانے کتنے کواڑوں پہ دستکیں

چلتی ہے جب بھی تیز ہوا بارشوں کے بعد

ہوتے ہیں پہلے کتنے عذابوں کے سلسلے

آتی ہے کام ماں کی دعا بارشوں کے بعد

کبھی یوں تھا ہمارے تھے زمانے

کبھی یوں تھا

کبھی یوں تھا ہمارے تھے زمانے

گگن پر چاند، سورج اور تارے تھے ہمارے

زمیں پر لہلہاتے کھیت سارے تھے ہمارے

تبسّم خیر نظارے تھے اپنے

ترنم ریز جھرنے تھے ہمارے

کبھی باہر نہیں آتی سدا پردے میں رہتی ہے

 کبھی باہر نہیں آتی، سدا پردے میں رہتی ہے

خدا جانے تمنّا کس کے بہکاوے میں رہتی ہے

تمہارا ساتھ میری زندگی بھر کی کمائی تھی

گئے ہو جب سے تم یہ زندگی گھاٹے میں رہتی ہے

کماں سے تیر چھوٹے تو کبھی واپس نہیں آتا

مگر اس کو غلط فہمی میرے بارے میں رہتی ہے

جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

 جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

بلبل‌ جاں مِری بسمل کبھی ایسی تو نہ تھی

وعدۂ وصل کیا کس نے دیا دم کس نے

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

اے شہ حسن رقیب آپ کا قادر نکلا

فوج عشاق کی بیدل کبھی ایسی تو نہ تھی

ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس

 ہر بات جو نہ ہونا تھی ایسی ہوئی کہ بس

کچھ اور چاہئے تجھے اے زندگی کہ بس

جو دن نہیں گزرنا تھے وہ بھی گزر گئے

دنیا ہے ہم ہیں اور ہے وہ بے بسی کہ بس

جن پر نثار نقد سکوں، نقد جاں کیا

ان سے ملے تو ایسی ندامت ہوئی کہ بس

Sunday 12 June 2022

کسی کو پا لیا ہم نے

تکمیل


محبت کے محاذوں پہ

زرا سی چوٹ کھانے پر

بلا کا چیخنے والو

تمہیں معلوم ہی کیا ہے

سراپا عشق ہونے پر

بدن کے سارے دفینوں کو چاٹ جاتی ہے

 بدن کے سارے دفینوں کو چاٹ جاتی ہے

یہ مفلسی، مِری پرواز کاٹ جاتی ہے

میں دشمنی بھی سلیقہ سے کر نہیں پاتا

کہ مصلحت مِری تلخی بھی پاٹ جاتی ہے

کبھی تو یوں ہے کہ بازو نہیں میسر ہیں

کبھی ہوا ہے کہ پرواز کاٹ جاتی ہے

وہ ایک شخص کہ باعث مرے زوال کا تھا

 وہ ایک شخص کہ باعث مِرے زوال کا تھا

زمیں سے ملتا ہوا رنگ اس کے جال کا تھا

دل و نگاہ میں جھگڑا بھی منفرد تھا مگر

جو فیصلہ ہوا وہ بھی بڑے کمال کا تھا

میں جان دینے کا دعویٰ وہاں پہ کیا کرتا

جو مسئلہ اسے درپیش تھا، مثال کا تھا

آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

 آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں، سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے، جیتے جی دِکھلا دینا

رات اور دن کے بِیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں

میں تم سے اِک بات کہوں گا، تم بھی کچھ فرما دینا

اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار مِلے

میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا

ایک حسرت ہے اندھیرا ہے فغاں ہے میں ہوں

 ایک حسرت ہے، اندھیرا ہے، فغاں ہے، میں ہوں

رات اجڑے ہوئے کمرے میں رواں ہے، میں ہوں

ان خد و خال پہ اتری ہوئی وحشت کو سمجھ

آئینے! تجھ میں کوئی اور کہاں ہے، میں ہوں

ماند ہوتے ہوئے سایوں کے جلو میں لرزاں

یہ جو اک شخص مِرے ہمسفراں ہے میں ہوں

کہ اک قصۂ کہنہ کو پھر سے دہرایا ہم نے

 ایک قصۂ کہنہ کی تجدید


نگاہ فسوں ساز

دل میں اتر کر

زمانہ سے بیگانہ سا کر گئی

لہو قطرہ قطرہ

نگاہوں سے زنجیر بن کر ٹپکتا رہے گا

عشق سے کھیل کے ہم ہار گئے داؤ میاں

 عشق سے کھیل کے ہم ہار گئے داؤ میاں

تم کسی اور کے ہوتے ہو تو ہو جاؤ میاں

ہم تمہیں خواب کی تعبیر بتا سکتے ہیں

تم کسی روز ہمیں گھر سے تو بلواؤ میاں

جس کے انکار کے چرچے ہیں بہت محفل میں

ہم کو اس شخص سے ملنا ہے جو ملواؤ میاں

قافلے دل میں اداسی کے جب آباد ہوئے

 قافلے دل میں اداسی کے جب آباد ہوئے

جتنے معمار تھے اس شہر کے فرہاد ہوئے

پہلے ملتا تھا فقط ہجر کا آزار ہمیں

وقت کے ساتھ کئی روگ پھر ایجاد ہوئے

دوستانہ سی طبیعت کے خد و خال لیے

عارفانہ سے جو چہرے تھے مجھے یاد ہوئے

جیون کے بے انت سفر پر کب میں بے اسباب رہا

 جیون کے بے انت سفر پر کب میں بے اسباب رہا

دل میں تیری یاد رہی، آنکھوں میں تیرا خواب رہا

تم جس کی پرچھائیں کو اب ملکوں ملکوں ڈھونڈتے ہو

میں نے اس کی اک چھب دیکھی اور برسوں بے تاب رہا 

اب بھی آنکھیں خشک رہیں تو ساری دنیا بولے گی

ایک شجر ایسا بھی تھا جو دریا میں بے آب رہا

Saturday 11 June 2022

کہیں دریائے راوی کے کنارے

 لاجونتی


کہیں دریائے راوی کے کنارے

نہاتے تھے جہاں راتوں کر تارے

نشیبِ کوہ میں اک جھونپڑی تھی

جو خود رو لالہ زاروں میں کھڑی تھی

بڑھاپے کی مئے بے رنگ سے چور

وہاں رہتا تھا اک بے چارہ مزدور

ہم جیتی بازی ہار گئے

 ہم جیتی بازی ہار گئے 

کھیلے تھی عشق کی بازی ہم 

جب خود کو تم پہ وار گئے 

یوں جیتی بازی ہار گئے

جب داؤ نہ چلنا آتا ہو

جب پانسہ چلنا دوبھر ہو

میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چھینتا

 میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چھینتا

پِھر مِرا دل، مِری زندگی چھینتا 

اور لُٹتے کو ہی پاس کیا تھا مِرے

آنکھ میں رہ گئی تھی نمی، چھینتا

جو اندھیروں میں پل کر ہوا خود جواں

کیا بھلا وہ مِری آگہی چھینتا

تو حکم کر نہ جاؤں تو جو چور کی سزا

 تُو حکم کر، نہ جاؤں تو جو چور کی سزا

پھر میں پلٹ کے آؤں تو جو چور کی سزا

بے خوف آ کے مِل کہ تِرے اذن کے بغیر

میں آنکھ بھی اٹھاؤں تو جو چور کی سزا

چوری کروں گا بس تِرا دل، نیند اور چین

میں اور کچھ چراؤں تو جو چور کی سزا

عجیب بات تھی ہر شعر پر اثر ٹھہرا

 عجیب بات تھی ہر شعر پُر اثر ٹھہرا

میں اس کی بزم میں کل رات با ہنر ٹھہرا

ہوا جو آ کے وہ مہمان بعد مدت کے

لہوں میں رقص ہوا، بام پر قمر ٹھہرا

ممانعت کا تقاضا تھا جس سے دور رہیں

چمن میں وہ ہی شجر سب سے با ثمر ٹھہرا

سخن جو اس نے کہے تھے گرہ سے باندھ لیے

 سخن جو اس نے کہے تھے گرہ سے باندھ لیے

خیال اسی کے تھے سو سو طرح سے باندھ لیے

وہ بن سنور کے نکلتی تو چھیڑتی تھی صبا

پھر اس نے بال ہی اپنے صبا سے باندھ لیے

ملے بغیر وہ ہم سے بچھڑ نہ جائے کہیں

یہ وسوسے بھی دلِ مبتلا سے باندھ لیے

دل وحشی کہاں سنبھلتا ہے

 دلِ وحشی کہاں سنبھلتا ہے

اور بھی ہاتھ سے نکلتا ہے

کمسنی میں یہ عشق کے سودے

جاں پگھلتی ہے، دل پگھلتا ہے

اس کا دامن ابھی چھوا بھی نہیں

ہاتھ میرا، ابھی سے جلتا ہے

اک بے وفا کے خفیہ پیغام پر ہوا ہے

 اک بے وفا کے خفیہ پیغام پر ہوا ہے

اور فیصلہ بھی خالی الزام پر ہوا ہے

جو ہوا ہے میکدے میں ساقی سے آج جھگڑا

جو پیا نہیں تھا میں نے، اسی جام پر ہوا ہے

خلقِ خدا کی خاطر جو کیا تھا میں نے کھل کر

مِرے ساتھ یہ تماشا اسی کام پر ہوا ہے

زخم اکتا کے کئی بار ہیں رونا بھولے

 زخم اکتا کے کئی بار ہیں رونا بھولے

دنیا، دنیا ہے یہ نشتر نہ چبھونا بھولے

تیرنا ہم کو نہیں آئے گا جب یہ طے ہے

آؤ منت کریں دریا سے، ڈبونا بھولے

ایسے مصروف ہوئے آج سبھی گھر کے مکیں

جہاں رکھا تھا مجھے گھر کا وہ کونا بھولے

پیش خیمہ یہ کسی اور مصیبت کا نہیں

 پیش خیمہ یہ کسی اور مصیبت کا نہیں

دکھ ہے کچھ اور مِری جان مسافت کا نہیں

ہم مضافات سے آئے ہوئے لوگوں کا میاں

مسئلہ رزق کا ہوتا ہے، محبت کا نہیں

جسم کی جیت کوئی جیت نہیں میرے لیے

یہ وہ سامان ہے جو میری ضرورت کا نہیں

چراغ جل بھی رہا ہے ہوا کا ڈر بھی ہے

 چراغ جل بھی رہا ہے ہوا کا ڈر بھی ہے

مِری دعاؤں پہ لیکن تِری نظر بھی ہے

گھروں کو پُھونکنے والے ذرا یہ دیکھ بھی لے

اسی گلی میں سُنا ہے کہ تیرا گھر بھی ہے

میں گھر سے نکلوں تو بے خوف ہو نکلتا ہوں

کہ میری ماں کی دعا میری ہمسفر بھی ہے

لاہور کتنا سلونا لفظ ہے

 لاہور

کتنا سلونا لفظ ہے

لاہوری نمک

جیسے نگینے، گلابی اور سفید

جی چاہتا ہے کہ انہیں تراش کے

چندن ہار میں جڑ دوں

اور کسی مُٹیار کی

کہی نہیں جو تمہیں دل کی بات سمجھا کر

 کہی نہیں جو تمہیں دل کی بات، سمجھا کر

مِرا گریز،۔ مِری احتیاط، سمجھا کر

میں شب کہوں تو سمجھ، جاگنا ہے بے معنی

میں دن کہوں تو اسے، طاق رات سمجھا کر

تُو پھول ہے سو تِری خوشبووں کا ڈر ہے مجھے

تجھے لگا نہیں سکتا میں ہاتھ، سمجھا کر

تم نے کہا تھا نا تمہیں مسکان اچھی لگتی ہے

 سنو

تم نے کہا تھا نا

تمہیں مُسکان اچھی لگتی ہے

بارش بھیگ جائے تو

بہنے والے آنسوؤں کا پتہ نہیں دیتی

یہ وحشتوں کا شور