Sunday 12 June 2022

آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

 آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں، سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے، جیتے جی دِکھلا دینا

رات اور دن کے بِیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں

میں تم سے اِک بات کہوں گا، تم بھی کچھ فرما دینا

اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار مِلے

میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا

دل دریا ہے، دل ساگر ہے، اس دریا اس ساگر کی

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بِتا دینا

ہم بھی لَے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو! تم بھی پینگ بڑھا دینا

فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چُنریا لا دینا

یہ مِرے پودے، یہ مِرے پنچھی، یہ مِرے پیارے پیارے لوگ

میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا

ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ! دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ مِلا دینا

آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو

شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اُڑا دینا

آج کی رات کوئی بیراگن کسی سے آنسو بدلے گی

بہتے دریا، اُڑتے بادل جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا

جاتے سال کی آخری شامیں بالک چوری کرتی ہیں

آنگن آنگن آگ جلانا، گلی گلی پہرا دینا

اوس میں بھِیگے شہر سے باہر آتے دن سے مِلنا ہے

صبح تلک سنسار رہے تو ہم کو جلد جگا دینا

نِیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں

کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پِلا دینا

تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مُراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا


رئیس فروغ

No comments:

Post a Comment