Wednesday 29 June 2022

بے شکل شباہت ہے بے ربط سراپا ہے

 بے شکل شباہت ہے بے ربط سراپا ہے

جذبات بھی جامد ہیں احساس بھی تشنہ ہے

بہتا ہوا دریا ہے اٹھتی ہوئی موجیں ہیں

صدیوں کی مسافت میں لمحوں کا تماشا ہے

تہذیب کا سناٹا ساکن ہے یہاں شاید

ویران حویلی کی دہلیز پہ پردہ ہے

الجھے ہوئے انساں کی تصویر بھی الجھی ہے

آنکھوں میں اندھیرا ہے چہرہ پہ اجالا ہے

منظر کے تناظر تک کس طرح رسائی ہو

نظروں سے بھی آگے ہے آنکھوں سے بھی گہرا ہے

یہ لمحہ مِری شب کا کتنا ہی مقدس ہے

جسموں کو ملاتا ہے روحوں کو جگاتا ہے

سائے کے تعاقب میں مصروف ہے روز و شب

ہمزاد مِرا شاہد! اوہام کا مارا ہے


محمود شاہد

No comments:

Post a Comment