بے شکل شباہت ہے بے ربط سراپا ہے
جذبات بھی جامد ہیں احساس بھی تشنہ ہے
بہتا ہوا دریا ہے اٹھتی ہوئی موجیں ہیں
صدیوں کی مسافت میں لمحوں کا تماشا ہے
تہذیب کا سناٹا ساکن ہے یہاں شاید
ویران حویلی کی دہلیز پہ پردہ ہے
الجھے ہوئے انساں کی تصویر بھی الجھی ہے
آنکھوں میں اندھیرا ہے چہرہ پہ اجالا ہے
منظر کے تناظر تک کس طرح رسائی ہو
نظروں سے بھی آگے ہے آنکھوں سے بھی گہرا ہے
یہ لمحہ مِری شب کا کتنا ہی مقدس ہے
جسموں کو ملاتا ہے روحوں کو جگاتا ہے
سائے کے تعاقب میں مصروف ہے روز و شب
ہمزاد مِرا شاہد! اوہام کا مارا ہے
محمود شاہد
No comments:
Post a Comment