بکھرتے خواص
ہوا ہوا میں گم ہوئی
ڈھول اپنی تھاپ پر خودی ہوا ہے محوِ رقص
پانیوں کو دِکھ رہا ہے خود میں صرف اپنا عکس
قلم سیاہیوں میں ڈوب کر کبھی نہ پھر اُبھر سکا
شجر تمہارے ہاتھ کا کبھی نہیں اُکھڑ سکا
جو چل رہے تھے رُک گئے، رُکے ہوئے تمام چل پڑے
غول پنچھیوں کے پانیوں میں غوطہ زن
مچھلیاں ہواؤں میں اڑان بھر چلیں
مسافتیں ٹھہر گئی ہیں
منزلوں کے پیر اُگ گئے، وہ چل پڑی
گونجتی ہے آنکھ کے کنار پر کوئی صدا
یہ کیا میں بَکنے لگ گیا
عجیب بے تُکی سی نظم ہے نہیں پڑھو، سکِپ کرو
عاصم رشید
No comments:
Post a Comment