شاعری چالاک ہوتی ہے
شاعری چالاک ہوتی ہے
بھیس بدل کر ستمگروں کی
نظروں سے چھپی رہتی ہے
جب میں دوسروں کے کھیتوں میں
ہل چلاتا ہوں
شاعری بھوک بن کر میرے پیٹ میں ہوتی ہے
مِل میں محنت کر کے
جب میں شام گھر لوٹتا ہوں
شاعری تھکن کی صورت
میرے لٹکے ہوئے بازوؤں میں ہوتی ہے
اور جب میری آنکھیں
شہرِ لاحاصل کے منظروں کی بیگانگی میں
بے مصرف ہو جاتی ہیں
شاعری مہربان عورت کا
روپ دھار کر
میرے خوابوں میں چلی آتی ہے
جب میرے ستمگر
شاعری کو پناہ دینے کا الزام لگا کر
میری تلاشی لیتے ہیں
وہ کچھ بھی برآمد نہیں کر سکتے
اس وقت شاعری خوف بن کر
ان کے دلوں میں ہوتی ہے
افتخار بخاری
No comments:
Post a Comment