Monday 27 June 2022

شاعری چالاک ہوتی ہے بھیس بدل کر

 شاعری چالاک ہوتی ہے


شاعری چالاک ہوتی ہے

بھیس بدل کر ستمگروں کی

نظروں سے چھپی رہتی ہے

جب میں دوسروں کے کھیتوں میں

ہل چلاتا ہوں

شاعری بھوک بن کر میرے پیٹ میں ہوتی ہے

مِل میں محنت کر کے

جب میں شام گھر لوٹتا ہوں

شاعری تھکن کی صورت

میرے لٹکے ہوئے بازوؤں میں ہوتی ہے

اور جب میری آنکھیں

شہرِ لاحاصل کے منظروں کی بیگانگی میں

بے مصرف ہو جاتی ہیں

شاعری مہربان عورت کا

روپ دھار کر

میرے خوابوں میں چلی آتی ہے

جب میرے ستمگر

شاعری کو پناہ دینے کا الزام لگا کر

میری تلاشی لیتے ہیں

وہ کچھ بھی برآمد نہیں کر سکتے

اس وقت شاعری خوف بن کر

ان کے دلوں میں ہوتی ہے


افتخار بخاری

No comments:

Post a Comment