مجھے انتظار رہتا ہے
بارش کے بعد پانی پہ
بنی اک شبیہہ ہلکورے لیتی ہے
رات کے بعد ایک خواب ڈر کر
پلکوں سے اترتا ہے
کوئی آنکھیں موندے محبت
کرتا ہے
دوپہر کے بعد ڈاک سے ایک
چِٹھی موصول ہوتی ہے
شام کے بعد سُنا ہے کوئی بھی
دعا قبول ہوتی ہے
کیا محبت ایک بھول ہوتی ہے
میرا اعتبار کہتا ہے
برسوں کا شمار کہتا ہے
جب اس کی کشتی ساحل
سے لگے گی
تب ایک نظم جگے گی
وہ ہتھیلی پہ ایک سِکہ رکھے گی
دنیا کے سب دُکھ خرید کر
چاند پہ اترے گی
جسے میں نے نہیں دیکھا
وہ اسے دیکھے گی
مجھے انتظار رہتا ہے
نیند سے پہلے کی گھڑی کا
ساون کی پہلی جھڑی کا
سارا احمد
No comments:
Post a Comment