در مدحِ آم
جو آم میں ہے وہ لبِ شیریں میں نہیں رس
ریشوں میں ہے جو شیخ کی داڑھی سے مقدس
آتے ہیں نظر آم تو جاتے ہیں بدن کَس
لنگڑے بھی چلے آتے ہیں کھانے کو بنارس
ہونٹوں میں حسینوں کے جو امرس کا مزا ہے
یہ پھل کسی عاشق کی محبت کا صِلہ ہے
آمد سے دسہری کے ہے منڈی میں دسہرا
ہر آم نظر آتا ہے معشوق کا چہرا
ہر رنگ میں ہلکا ہے تو اِک رنگ میں گہرا
کہہ ڈالا قصیدے کے عوض آم کا سہرا
خالق کو ہے مقصود کہ مخلوق مزہ لے
وہ چیز بنا دی ہے کہ بُڈھا بھی چبا لے
پھل کوئی زمانے میں نہیں آم سے بہتر
کرتا ہے ثناء آم کی غالب سا سخنور
اقبال کا ایک شعر قصیدے کے برابر
چِھلکوں پہ پھینک لیتے ہیں ساغر سے پھٹیچر
ہونٹوں میں حسینوں کے جو امرس کا مزا ہے
یہ پھل کسی عاشق کی محبت کا صِلہ ہے
نفرت ہے جسے آم سے وہ شخص ہے بیمار
لیتے ہیں شکر آم سے اکثر لب و رُخسار
آموں کی بناوٹ میں ہے مضمر تیرا دیدار
بازو وہ دسہری سے وہ کیری سے لبِ یار
ہیں جام و سبُو خُم کہاں آنکھوں سے مشابہ
آنکھیں تو ہیں بس آم کی پھانکوں سے مشابہ
کیا بات ہے آموں کی ہوں دیسی کہ بدیسی
سُرخے ہوں سرولی ہوں کہ تُخمی ہو کہ قلمی
چونسے ہو کہ سفیدے ہوں کہ خجری ہوں کہ فجری
اک طُرفہ قیامت ہے مگر آم دسہری
فردوس میں گندم کے عوض آم جو کھاتے
آدم کبھی جنت سے نکالے نہیں جاتے
ساغر خیامی
No comments:
Post a Comment