تابکاری کا نگاہوں میں اثر آیا ہے
تُو کسی اور کی بانہوں میں نظر آیا ہے
عشق ٹوکے کی طرح کاٹتا جاتا ہے مجھے
اس میں اُنگلی نہیں آئی، مِرا سر آیا ہے
کوئی سائنس، کوئی جادو ہو کہ محفوظ کروں
ایک موسم جو مِرے دل میں اُتر آیا ہے
در تِری یاد کا رکھا نہیں تابوت میں پر
در وہ دیمک زدہ دیوار میں در آیا ہے
تُو یقیناً اسے ملتا ہے محبت سے گلے
جو تِری سمت گیا خون میں تر آیا ہے
تُو نے پانی بھی نہیں پوچھا بچھڑتے لمحے
تُو نے دیکھا بھی نہیں آنکھ میں بھر آیا ہے
سمت پائی میری کمپاس نے دربدری سے
اب کہیں جا کے مجھے گھر کا سفر آیا ہے
شاعری ہوتی نہیں اپسرا ایکسیڈنٹل
بارہا کچلی گئی تو یہ ہنر آیا ہے
اپسرا گل
No comments:
Post a Comment