Saturday 25 June 2022

یہ دیوانے کبھی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے

 یہ دیوانے کبھی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے

گریباں چاک جب تک کر نہ لیں گے دم نہیں لیں گے

لہو دیں گے تو لیں گے پیار موتی ہم نہیں لیں گے

ہمیں پھولوں کے بدلے پھول دو ،شبنم نہیں لیں گے

یہ غم کس نے دیا ہے پوچھ مت اے ہم نشیں ہم سے

زمانہ لے رہا ہے نام اس کا، ہم نہیں لیں گے

محبت کرنے والے بھی عجب خوددار ہوتے ہیں

جگر پر زخم لیں گے، زخم پر مرہم نہیں لیں گے

غم دل ہی کے ماروں کو غم ایام بھی دے دو

غم اتنا لینے والے کیا اب اتنا غم نہیں لیں گے

سنوارے جا رہے ہیں ہم الجھتی جاتی ہیں زلفیں

تم اپنے ذمہ لو اب یہ بکھیڑا ہم نہیں لیں گے

شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے

مگر عاجز غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے


کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment