Thursday 23 June 2022

اہل طریقت بھی تیری ہی شراب سے سرشار ہیں

 نشاطِ معنویاں از شراب خانہ تست

فسونِ بابلیاں فصلے از افسانہ تست

اہلِ طریقت بھی تیری ہی شراب سے سرشار ہیں

اہلِ بابل کا سارا جادو بھی تیرے افسانے کا ایک باب ہے

بہ جام و آئینہ حرف جم و سکندر چیست

کہ ہر چہ رفت بہ ہر عہد در زمانہ تست

جام اور آئینے کی بات ہو تو جم اور سکندر کا حوالہ کس لیے کہ

ہر دور/عہد میں جو کچھ بھی گزرا وہ تیرے ہی زمانے کے متعلق تھا

فریبِ حسنِ بتاں پیشکش اسیر تو ایم

اگر خطست وگر خال، دام و دانۂ تست

ہم جو حسینوں کے فریبِ حسن کا شکار ہیں

حسینوں کے خط و خال تیرے ہی تو دام و دانہ ہیں

ہم از احاطہ تست ایں کہ در جہاں ما را

قدم بہ بت کدہ و سر بر آستانۂ تست

تو جو تمام عالم پر چھایا ہوا ہے تو یہ اسی کا نتیجہ ہے 

کہ ہم ہیں تو بتکدے میں مگر ہمارا سر تیرے آستانے پر ہے

سپہر را تو بتاراج ما گماشتہ ای

نہ ہر چہ دزد زما برد در خزانۂ تست؟

تو نے آسمان کو ہمیں لوٹنے پر مقرر کر رکھا ہے 

چور جو کچھ بھی ہم سے لوٹ کر لے گیا وہ تیرے ہی خزانے میں ہے

مرا چہ جرم گر آسماں پیماست

نہ تیز گامی توسن ز تازیانۂ تست؟

اگر میرا تخیل آسمانوں کی سیر کرتا ہے تو اس میں میری کیا خطا ہے

کیا یہ تیرا چابک نہیں جو میرے تخیل کے گھوڑے کو تیز رفتار کیے ہوئے ہے؟

کماں ز چرخ و خدنگ از بلا و پر ز قضا

خدنگ خوردہ ای صید گہ نشانۂ تست

آسمان کمان کی مانند ہے تو مصیبتیں تیر کی صورت ہیں جبکہ قضا اس تیر کے پر ہیں

اس شکارگاہ میں تیر کھانے والا تیرے ہی نشانے کی زد میں ہے

سپاس جود تو فرض است آفرینش را

دریں فریضہ دو گیتی ہماں دوگانہ تست

مخلوقِ کائنات کا فرض ہے کہ وہ تیری بخشش کا شکر بجا لائے

اس فریضے میں یہ دو جہاں گویا اس شکرانے کے دو نفل ہیں

تو اے کہ محو سخن گسترانِ پیشینی

مباش منکرِ غالب کہ در زمانہ تست

تُو جو قدیم استاد شعرا کی شاعری کے مطالعے میں محو رہتا ہے

تُو غالب کا منکر نہ ہو کہ وہ تیرے عہد/زمانے میں ہے


فارسی شاعری مرزا غالب


No comments:

Post a Comment