کوئی بھی پیڑ ہو وہ پہلے پانی چاہتا ہے
میاں یہ عشق ہے اور یہ جوانی چاہتا ہے
کسی کو اتنا میسر بھی کوئی شخص نہ ہو
یہ میرا دل ہے کہ اب رائیگانی چاہتا ہے
میں نے سنبھالا ہوا ہے یہ ہجر بھی کب سے
وہ برسوں بعد کوئی اور نشانی چاہتا ہے
اسے پتہ ہی نہیں کتنے لوگ بے گھر ہیں
عجیب آدمی ہے، لا مکانی چاہتا ہے
میں خود کو آگے کی جانب دھکیلتا ہوں روز
یہ میرا دل ہے کہ ہر شے پرانی چاہتا ہے
تیمور بلال
No comments:
Post a Comment