میرا بس چلے
تو سمندروں کی لہروں سے دل بنا کر
ان کے اندر تمہارا نام کندہ کر دوں
میرا بس چلے تو
پھولوں سے تمہارا نام لکھ کر
کسی سنسان قبرستان میں لٹکا دوں
تاکہ وہاں کے مُردے سکون پائیں
میرا بس چلے تو
شفا کے سارے اسموں کے بیچ
تمہارا نام لکھ کر ہر اذیت میں مبتلا مریض کو دوں
کہ اسے آنکھوں سے لگاؤ اور شفا پاؤ
میرا جی چاہ رہا ہے
دنیا کے سارے محبت کے تحائف
تمہارے قدموں میں لا کر رکھ دوں
مجھے عمر کے آخری دن تک
تم سے ایسے محبت رہے گی
جیسے پندرہ سال بعد کسی ماں کو
پیدا ہونے والی پہلی اولاد سے محبت ہوتی ہے
شاہد ریاض
No comments:
Post a Comment