Monday 27 June 2022

وہ کیا کہہ گئے مجھ کو کیا کہتے کہتے

 وہ کیا کہہ گئے مجھ کو کیا کہتے کہتے 

بھلا کہہ گئے وہ برا کہتے کہتے 

کہیں یہ نہ ہو آنکھ بھر آئے قاصد 

مِری داستانِ وفا کہتے کہتے 

اٹھا تھا میں کچھ ان سے کہنے کو، لیکن 

‘‘زباں رک گئی بارہا ’’کہتے کہتے

وہ سنتے مگر اے ہجومِ تمنا

ہمِیں کھو گئے مدعا کہتے کہتے 

زمانے کی آغوش میں جا پڑے ہم 

زمانے کو نا آشنا کہتے کہتے 

پلائے گا ساقی تو پینی پڑے گی 

کسی دن روا، ناروا کہتے کہتے 

نگاہیں جھکیں، لب ہلے، مسکرائے 

وہ چپ ہو گئے جانے کیا کہتے کہتے 

ادھوری رہی داستانِ محبت 

‘‘جہاں سے کوئی اٹھ گیا ’’کہتے کہتے 

نصیر! ایسے اشعار ان کو سناؤ 

وہ شرمائیں بھی مرحبا کہتے کہتے 


سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment