نظر کے زاغ، ارمانوں کے کرمک مر چکے ہوں گے
یہ جتنے روگ بھی ہیں مجھ کو لاحق مر چکے ہوں گے
یہ ہم جو خود سے لڑنے کے لیے خندق بناتے ہیں
سمجھتے ہیں کسی دن زیرِ خندق مر چکے ہوں گے
چٹائی اور ہکے(حقے) روئیں گے تنہائی کو اپنی
لگائے بیٹھے ہیں جو لوگ بیٹھک مر چکے ہوں گے
وہ آئے گا، کہ جس کا ذکر آیا ہے کہانی میں
وہ آئے گا مگر ہم لوگ تب تک مر چکے ہوں گے
یہ میلے اور بزم آرائیاں باقی رہیں شاید
یہ جو قہقہے ہیں وجہِ رونق مر چکے ہوں گے
ہر اک سُو خواب لے لو، خواب لے لو کی صدا ہو گی
مگر بازار بھر کے سارے گاہک مر چکے ہوں گے
یہ آنکھیں خشک ہو جائیں گی، جو آنسو بہاتی ہیں
یہ دل جو سینوں میں کرتے ہیں دھک دھک مر چکے ہوں گے
ہتھیلی پر حنا زندہ رہے گی، اور مہکے گی
حویلی، روشنی، شہنائی،ڈھولک مر چکے ہوں گے
سیہ آہن کے دروازوں کو وا ہونا نہ آئے گا
سنہرے ہاتھ جو دیتے ہیں دستک مر چکے ہوں گے
اسی دن آخری سورج لکھے گا؛ شام زندہ باد
وہ دن جس دن درندے اور دیمک مر چکے ہوں گے
مگر افسوس، صد افسوس، صد ہا اور صد ہا ہا
کنواں چلتا رہے گا اور مینڈک مر چکے ہوں گے
دانیال طریر
No comments:
Post a Comment