Monday 27 June 2022

اس کی خوشبو میری غزلوں میں سمٹ آئی ہے

 اس کی خوشبو میری غزلوں میں سِمٹ آئی ہے

نام کا نام ہے، رُسوائی کی رُسوائی ہے

دل ہے اک اور دو عالم کا تمنائی ہے

دوست کا دوست ہے، ہرجائی کا ہرجائی ہے

ہجر کی رات ہےاور ان کے تصور کا چراغ

بزم کی بزم ہے، تنہائی کی تنہائی ہے

کون سے نام سے تعبیر کروں اس رُت کو

پُھول مُرجھائے ہیں، زخموں پہ بہار آئی ہے

کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گِرے ہیں آنسو

ایک بُھولی ہوئی تصویر اُبھر آئی ہے


اقبال اشہر

اقبال اشعر

No comments:

Post a Comment