کچھ بڑھایا کچھ نبیڑا رکھ دیا ہے طاق پر
زندگی! تیرا بکھیڑا رکھ دیا ہے طاق پر
کیا بھنور اور کیا منافق ناخدا کا خوف اب
او محبت! تیرا بیڑا رکھ دیا ہے طاق پر
جب جنوں کی بے نوائی کا تمسخر اڑ گیا
تب رفو دامن ادھیڑا رکھ دیا ہے طاق پر
جانتے ہیں کیف کا موسم ہوا ہو جائے گا
اس کی یادوں کا تریڑا رکھ دیا ہے طاق پر
کیا تمہارے برد دیپک راگ گا کر دیکھتے
بس ذرا ملہار چھیڑا رکھ دیا ہے طاق پر
جب شجر بھی چھاؤں پر حق اپنا جتلانے لگا
ہم نے بھی سایہ سکیڑا رکھ دیا ہے طاق پر
خاک ڈالی آنسوؤں میں غرق ہوتی زیست پر
صائمہ! غم کو کھدیڑا، رکھ دیا ہے طاق پر
صائمہ اسحاق
No comments:
Post a Comment