Thursday, 30 June 2022

رفاقت کیا اذیت ہے، نہیں تو

 رفاقت کیا اذیت ہے نہیں تو

مجھے تم سے محبت ہے، نہیں تو

مجھے کیا خوفِ فرقت ہے، نہیں تو

یہ غم کیا دل کی عادت ہے، نہیں تو

کسی سے کچھ شکایت ہے، نہیں تو


دعا کے بِن، کسی فریاد کے بِن

بدن میں روح کی بُنیاد کے بِن

بدن کی قید میں صیاد کے بِن

کسی کے بِن، کسی کی یاد کے بِن

جیے جانے کی ہمت ہے، نہیں تو


مِری وحشت سے خِلقت بھی ہے لرزاں

خدا بھی ہو گیا ہے مجھ سے نالاں

مِرے سینے میں اک آتش ہے پنہاں

کسی صورت بھی دل لگتا نہیں، ہاں

تو کچھ دن سے یہ حالت ہے، نہیں تو


نہیں ہے مجھ کو بھی کسی سے نفرت

ہیں سب غم جانتا ہوں رازِ قدرت

ہے میرے دکھ سے غافل، وائے خلقت

تِرے اِس حال پر ہے سب کو حیرت

تجھے بھی اِس پہ حیرت ہے، نہیں تو


میں اپنی کر کے پھر تفسیر اس کو

دِکھا دوں اس کی میں تصویر اس کو

مِلائے مجھ سے پھر تقدیر اس کو

ہے وہ اِک خوابِ بےتعبیر، اس کو

بھلا دینے کی نیت ہے، نہیں تو


اک آنسو نے یہ مجھ پر رمز کھولی

اک آیت میں چُھپی ہیں رمز ساری

سو خود میں جھانک کر یہ بات پوچھی

ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری

تجھے اس پر ندامت ہے، نہیں تو


سبھی غم مجھ سے ہی مرقوم تھا کیا

تو میں ہی صبر کو ملزوم تھا کیا

میں آیۃِ صبر کا مفہوم تھا کیا

ہوا جو کچھ یہی مقسوم تھا کیا

یہی ساری حکایت ہے، نہیں تو


دلِ مُضطر کی فریادوں سے تجھ کو

شبِ ہجراں کی تعبیروں سے تجھ کو

سکوتِ شب کی سب یادوں سے تجھ کو

اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو

اماں پانے کی حسرت ہے، نہیں تو


میں پھر یہ کہہ رہا ہوں کر کے جرأت

مِری ہر بات میں ہوتی ہے حکمت

عطا کیا چیز ہے، کیا شے ہے محنت

وہاں والوں سے ہے اتنی محبت

یہاں والوں سے نفرت ہے، نہیں تو


وہ یارو چھوڑ کر جو کیا گیا ہے

کلیجہ میرا منہ کو آ گیا ہے

یہ منظر روح کو دہلا گیا ہے

وہ درویشی جو تج کر آ گیا ہے

یہ دولت اس کی قیمت ہے، نہیں تو


ہُوا ماضی کے کسی باب میں گُم

کبھی رنج و الم کی تاب میں گُم

یہ دنیا ہے حبابِ ناب میں گُم

تُو رہتا ہے خیال و خواب میں گُم

تو اِس کی وجہ فرصت ہے، نہیں تو


مجھے وحشت سے کچھ حاصل ہوا ہے

مِرا دشمن خدا سے بھی بڑا ہے

مِرے دل میں کبھی بھی شک رہا ہے

سبب جو اِس جدائی کا بنا ہے

وہ مجھ سے خوبصورت ہے، نہیں تو


احسن اقبال احمد

No comments:

Post a Comment