Sunday, 26 June 2022

تم کتنے خوبصورت ہو

 تم کتنے خوبصورت ہو


مجھے کچھ اپنے جیسے لفظ دو تو میں بھی کچھ لکھوں

مجھے اچھا نہیں لگتا

تِری آنکھوں کے بارے یہ لکھوں کہ جھیل کی گہرائیاں

جس جا پہ تھک جائیں

وہاں پر تیری آنکھوں کے کنارے راج کرتے ہیں

مجھے اچھا نہیں لگتا

کہ تیرے ہونٹ کو بازار میں بِکتے زر و لعل و جواہر سا کہوں

یا پاؤں میں مسلے گلابوں کی طرح لکھوں

جو پل میں سوکھ جاتے ہیں

تم کتنے خوبصورت ہو

مجھے اچھا نہیں لگتا تِرے گالوں کے بارے میں لکھوں

کہ یہ صحیفے ہیں

یہ دنیا تو صحیفوں کی حقانیت پہ بھی سو وار کرتی ہے

مجھے اچھا نہیں لگتا تِری روشن جبیں کو چاند سا لکھوں

کہاں زلفیں تِری ہیں اور کہاں کچھ دیر کے بادل

کہاں تیرا قدو قامت، کہاں یہ ڈھلتی دوپہریں

مجھے اچھا نہیں لگتا تِرے ہاتھوں کے اک اک لمس کو

تشبیہہ دوں دستِ مسیحا سے

کہاں تیرا سراپا اور کہاں یہ عالمِ فانی

تم کتنے خوبصورت ہو

مجھے کچھ اپنے جیسے لفظ دو تو میں بھی کچھ لکھوں

مجھے تسلیم ہے کہ میر صاحب نے

کسی کے ہونٹ کو اک برگِ گل کہہ کر پکارا تھا

مجھے معلوم ہے وہ بھی بہت ہی خوبصورت تھا

کہ آخر میر کو کہنا پڑا تھا

دکانیں حسن کی آگے تِرے تختہ ہوئی ہوں گی

جو تو بازار میں ہو گا تو یوسف کب بِکا ہو گا

مگر افسوس

تم کو میر نے دیکھا نہیں ہے


حسنین محسن

No comments:

Post a Comment