Wednesday, 29 June 2022

جانے پاگل سی لڑکی کہاں کھو گئی

 میں نے رنج و الم کے سوا

 آج تک کیا دیا ہے تمہیں

اور تم ہو کہ پھر بھی بُھلاتے نہیں 

چھوڑ جاتے نہیں

جب کبھی خلوتوں میں وہ کہتی

تو خود اُس کی آنکھیں چھلکنے کو آ جاتی تھیں 

اپنی آنکھوں کے گوشوں میں ٹھہری ہوئی 

بارشوں کو مکمل چُھپاتے ہوئے

مُسکراتے ہوئے

اپنے رسم و رواجوں میں جکڑے قبیلے 

کی وحشت کے قصے سناتے ہوئے

اُس کے لہجے میں صحرا سمٹ آتا تھا

جب وہ کہتی محبت جدائی کا ہی دوسرا نام ہے

اس کی آواز اُس کے گلے میں ہی رستہ بھٹک جاتی تھی

اپنی آنکھوں میں آنسو چُھپاتے ہوئے

مُسکراتے ہوئے

جب وہ کہتی؛ بچھڑنا حقیقی محبت کی معراج ہے

میری آنکھوں میں پھیلے ہوئے دشت کی وُسعتیں دیکھتی 

میری ٹوٹی، بِکھرتی، اُجڑتی ہوئی چاہتیں دیکھتی 

میرے چہرے پہ پھیلے ہوئے کرب کو دیکھ کر 

مجھ سے اکثر وہ پاگل کہا کرتی تھی؛

یاد رکھنا ہی تو بس محبت نہیں 

بُھول جانا بھی تو ایک انداز ہے

وصل ہی سارا منصب نہیں عشق میں

ہجر اپنی جگہ ایک اعزاز ہے

میری پلکوں سے ٹِپ ٹِپ برستے ہوئے

اشک چُنتے ہوئے

جب وہ کہتی؛ 

محبت مُسافر کا زادِ سفر ہی نہیں سائباں بھی تو ہے

جانے کیوں مجھ کو لگتا 

جدائی کے دن مجھ کو کھا جائیں گے

اپنی آنکھوں میں فرقت کے انجانے سے ڈر سنبھالے ہوئے

جب میں اُٹھتا تو لگتا 

بڑھاپا جوانی کے ایام کو پی گیا

مجھ کو لگتا 

میں تھوڑی سی اس عمر میں بھی بہت جی گیا

وقت کٹتا رہا 

وقت کٹ ہی گیا 

وقت کے ایک انبوہ میں 

ہاتھ سے ہاتھ کا صرف چُھٹنا ہی تھا

پھر خبر ہی نہیں وہ کِدھر ہو گئی

تھک گیا ہوں اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے 

جانے پاگل سی لڑکی کہاں کھو گئی


میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment