یادداشت میں پڑی لڑکی
میں جانتا ہوں ایک لڑکی کو
جسے میں نے پہلی بار
جولائی کے ابتدائی ہفتے میں
سمندر کی لہروں سے کھیلتے دیکھا
وہ چُلو بھر پانی لیتی اور سمندر میں پھینک کر کہتی
’’اپنی مہربانیاں اپنے پاس رکھ‘‘
وہ مسکراتے ہوئے
دو جہانوں میں کرفیو نافذ کروا سکتی تھی
اس کے صندلی بدن سے گرتے ہوئے پسینے کے قطرے
پچھلی صدی کی وائین سے قیمتی تھے
اس کے ہونٹوں نے جس شخص کا نام پکارا
خدا نے اس شخص کے لیے جنت لکھ دی ہو گی
اسے بارش میں بھیگنا اچھا نہیں لگتا تھا
وہ کھل کے ہنسنا اور رونا پسند کرتی تھی
ہم نے بہت ساری راتیں
ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر خاموشی سے گزار دیں
بہت سے مشترکہ غم
نفرت کی تیز دھار چھری سے ذبح کر دئیے
اس کے باوجود
اپنے مزاج کو خیال کے نرغے سے بازیاب نہ کروا سکے
وہ ایک دن سمندری سفر پر چلی گئی
اور میں کھلے آسمان کے نیچے
انتظار کی بانسری بجاتے سوچتا ہوں
کیا وہ میری یاد میں لہریں گنتے وہ گیت گاتی ہو گی
جو میں نے اس کے ہاتھ پر لکھا تھا
یا صرف آنسو بہاتی ہو گی
علی اسد
No comments:
Post a Comment