بات اظہار تک چلی آئی
لالی رخسار تک چلی آئی
ڈھونڈتے ڈھونڈتے نظر تجھ کو
تیرے دیدار تک چلی آئی
تیرے جانے کی جب خبر پھیلی
تیرگی وار تک چلی آئی
کیا کشش تھی کہ چاہنے والی
شہر سے غار تک چلی آئی
کیا کسی سے وہ رکنے والی تھی
موت دربار تک چلی آئی
اتنا روئے کہ آنسوؤں کی نمی
تیری دیوار تک چلی آئی
تیرے غم نعرہ زن رہے دل میں
گُونج پندار تک چلی آئی
آنکھ مِلنے کی دیر تھی شہزاد
بات اقرار تک چلی آئی
آصف شہزاد
No comments:
Post a Comment