Monday, 27 June 2022

بات اظہار تک چلی آئی

 بات اظہار تک چلی آئی

لالی رخسار تک چلی آئی

ڈھونڈتے ڈھونڈتے نظر تجھ کو

تیرے دیدار تک چلی آئی

تیرے جانے کی جب خبر پھیلی

تیرگی وار تک چلی آئی

کیا کشش تھی کہ چاہنے والی

شہر سے غار تک چلی آئی

کیا کسی سے وہ رکنے والی تھی

موت دربار تک چلی آئی

اتنا روئے کہ آنسوؤں کی نمی

تیری دیوار تک چلی آئی

تیرے غم نعرہ زن رہے دل میں

گُونج پندار تک چلی آئی

آنکھ مِلنے کی دیر تھی شہزاد

بات اقرار تک چلی آئی


آصف شہزاد

No comments:

Post a Comment